شاگرد کے ہاتھوں اُستاد قتل، اصل مُجرم کون؟
- March 21, 2019 12:14 am PST
اکمل سومرو
آج پنجاب میں تشدد کے دو واقعات ہوئے ہیں۔ صادق ایجرٹن کالج بہاولپور میں پروفیسر آف انگریزی خالد حمید کا قتل۔ دوسرا واقعہ پنجاب یونیورسٹی میں طلباء کی ریلی پر اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں کا ڈنڈوں سے حملہ۔
قتل کرنے والا خطیب حسین رول نمبر 74 کے تحت 3 سال سے اس کالج میں انگریزی کا طالبعلم ہے۔ یہ دونوں واقعات اُس نظریے کی پرچار کا لازمی نتیجہ ہیں جو مخصوص تصورات پر مبنی اسلام ہماری درس گاہوں میں جنرل ضیاء الحق نے تنظیموں کے ذریعے سے نافذ کیا تھا جس کی جڑیں آج بھی ہماری درس گاہوں میں کافی مضبوط ہیں۔ پروفیسر کا قتل کیوں ہوا؟ اس کا تحلیل و تجزیہ کرنے سے پہلے وہ خط ملاحظہ کیجیئے جو اس قتل سے پہلے شہر کے انتظامی سربراہ ڈپٹی کمشنر کے نام لکھا گیا:
“گزارش ہے کہ ہم بی ایس انگریزی کے طلباء ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے ایس ای کالج کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں سالانہ فنکشن کے نام پر بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے جس سے کالج کا ماحول خراب ہورہا ہے۔ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں اور یہاں کے تعلیمی ادارے ہمارے لیے تربیت گاہ ہیں۔ لیکن ہماری تربیت گاہوں میں فنکشن کے نام پر لڑکیوں کو ناچ نچایا جارہا ہے۔ مورخہ 21 مارچ کو ہونے والے فنکشن کی پریکٹس گزشتہ کئی دنوں سے جاری ہے جس کی وجہ سے کالج کے طلباء و طالبات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جب کہ ہمارا مذہب اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ہم مسلمان ہونے کے ناطے اس چیز کی بھر پور مزمت کرتے ہیں اور آئندہ بھی کالج میں اس طرح کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔ لہذا مہربانی فرما کر تعلیمی درس گاہوں میں اس طرح کے یورپ کے کلچر کو روکا جائے”۔
طلباء کے ذہنوں میں یورپ سے متعلق اس مخصوص اسلامی تشخص کے نظریے نے ذہن کو اس حد تک جکڑ لیا ہے کہ شاگرد اُستاد کا قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ کیا اس نظریے کی پرچار کرنے والی تنظیمیں طلباء کے ہاتھ میں جنت کا پروانہ بھی تھما دیتی ہیں جس کے بعد ایک تعلیم یافتہ نوجوان قتل کو اسلام کی حفاظت کے قریب تر جانتا ہے؟ ہمیں اس کی جڑیں تلاش کرنی ہیں، تاریخ کی ورق گردانی کرنا ہوگی۔ میں صادق ایجرٹن کالج کا ہی طالبعلم رہا ہوں۔ یہ کالج 2003ء میں بھی اسی طرح کے تشدد آمیز نظریات کا مرکز رہا ہے اور ان نظریات کی آبیاری لاہور سے بیٹھ کر ہوتی ہے۔ اس نظریے کی بقاء کے لیے مقتل گاہیں سجانا ہی ان کے نزدیک بقاء ہے۔
اسلامی تشخص کے اس نظریے کا آلہ کار بنانے کے لیے ہر سال تعلیمی اداروں میں نوجوان بھرتی کیے جاتے ہیں پھر ان نوجوانوں کو تشدد پسندی، جہادی تصورات، نظریہ طالبان پر مبنی لڑیچر، لیکچرز، درس منعقد ہوتے ہیں اور کالج و یونیورسٹی کے ہاسٹلز ان کا مرکز اور پہلا ہدف ہوتے ہیں۔ اسلامی تشخص یا ثقافتی شناخت پر مبنی جو تصورات ان طلباء کے ذہنوں میں اُنڈیلے جاتے ہیں اس کے بعد خون سے ہی پیاس بجھنے کا زبردست احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ پروفیسر خالد حمید کا قتل کرنے کے بعد بھی پولیس رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ قاتل خطیب شعبہ انگریزی کی سالانہ تقریب کو اسلام دُشمن تقریب گردانتا ہے اور وہ اس قتل پر بالکل مطمئن ہے۔
ایک کالج کے نوجوان کے ذہن میں یہ تصورات پیدا کرنے والی تنظیمیں سائنٹیفک اُصولوں کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں اور اس سائنسی عمل میں پنجاب کی وہ اساتذہ تنظیم بھی شامل ہے جسے لاہور سے کنٹرول کیا جاتا ہے یہ تنظیم کے نمائندہ اُستاد اپنے کمروں اور کمرہ جماعت میں ان تشدد پسند نظریات کی ترویج میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
ان نظریات کی تبلیغ کرنے والوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ ضیاء الحق کی روح زندہ ہے اور اس روح کو جسم بھی میسر ہے۔ یہ جسم ہماری درس گاہوں میں مکالمے و مباحثے کے مقابلے پر تشدد پسندی، سوال و جواب کے مقابلے پر ڈنڈے، علم کے مقابلے پر جہالت کے داعی ہیں۔ ان کے نظریات ثقافتی شناخت سے اُوپر اُٹھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، ان نظریات کے پرچاری گردن اور پیٹ سے نیچے دیکھنے کے عادی ہیں ان کا اسلام ہی ٹخنوں سے شروع ہوتا ہے۔ اس پُرتشدد تاریخ میں پشاور سے لے کر کراچی تک کتنے ہی نوجوان قتل ہوئے، کتنے ہی اپاہج ہوئے ہیں۔ ان سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔