سندھ: جیکب آباد، طلبہ کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور
- January 11, 2018 6:39 pm PST
جیکب آباد
تین دہائیوں سے اسکول کو عمارت نہ ملی۔ 2001سے اساتذہ نہیں آئے، 90طلبا وطالبات کھلے آسمان تلے سخت سردی میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ پرائیویٹ استاد مقرر کیا ہے جسے جیب سے تنخواہ دیتے ہیں، ان خیالات کا اظہار قصبہ داد پور جاگیر کے رہائشی محمد اویس جکھرانی نے صحافیوں سے کیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے محکمہ تعلیم میں نافذکی گئی ایمرجنسی نافذ کرنے کے باوجود اس جدید دورمیں بھی جیکب آباد میں ایک ایسا اسکول بھی واقع ہے جسے 29برس سے عمارت ہی نہیں ملی۔
ذرائع کے مطابق اسکول کی تعمیر کے لیے ان 29برس میں کئی بار آنے والے فنڈز خوردبرد کرلیے گئے ہیں جبکہ نہ اسکول بنا اور نہ ہی اساتذہ آئے اس کے باوجود بھی عمارت کی مرمت سمیت فرنیچر اور یہاں تک کہ ایس ایم سی فنڈز بھی خوردبرد کرلیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں قصبہ داد پور جاگیر کے رہائشی محمد اویس ولد محمد مرید نے صحافیوں کو دہائی دیتے ہوئے کہاکہ گورنمنٹ پرائمری اسکول بخش علی جکھرانی 1987میں منظور ہوا جس کو 1989میں بلڈنگ دی گئی جوآج تک نہیں بنی 2001سے کوئی استاد اس اسکو ل میں ڈیوٹی کرنے نہیں آیا 2008میں اسکول کی مرمت کیلئے فنڈزمنظور ہوئے کہاں خرچ ہوئے کچھ پتانہیں اس گاؤں کیلئے روڈ بھی منظورہوا جس کارخ جنگل کی طرف ہے اس کی بھی تحقیقات کی جائے۔
محمد اویس نے کہاکہ جیب سے خرچ کرکے اسکول میں استاد مقرر کیا ہے جو کھلے آسمان تلے شدید ٹھنڈ میں 90سے زائد طلبہ وطالبات کو تعلیم دینے پر مجبورہے بچے سردی میں ٹھٹرتے رہتے ہیں اورگرمی میں جھلستے رہتے ہیں کوئی پرسان حال نہیں اکثر بچے سردی اور گرمی کی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے بیمارہوجاتے ہیں۔
اسکول کو عمارت دینے اور اسکول میں مقرراساتذہ کو ڈیوٹی کاپابندکرنے کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ ،وزیر اعلیٰ سندھ ،سیکرٹری تعلیم ،سیشن جج جیکب آباد اورڈپٹی کمشنر کو تحریری طورپر درخواست بھی ارسال کی ہے۔ محمد اویس نے کہاکہ اس جدید دورمیں بھی علاقے کے لوگ تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ہمارے ساتھ انصاف کیاجائے دوسری جانب اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر محمد نعیم سندھو اور ڈی ای او تعلیم محمد صادق کٹوہر سے موقف لینے کی کوشش کی گئی تو ان کا نمبر اٹینڈ نہ ہوا۔