سندھ میں ایک کمرے کے 15 ہزار سرکاری اسکول بند کرنے کا فیصلہ
- October 9, 2018 1:28 pm PST
کراچی: صفدر رضوی
سندھ حکومت نے پورے صوبے میں ایک کلاس روم میں قائم ’’ناقابل فعال‘‘ یعنی 15 ہزار Non-viable سرکاری اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ میں مجموعی انرولمنٹ کا 80 فیصد بوجھ اٹھانے والے 5 ہزار سرکاری اسکولوں کوآئندہ 2 برسوں میں تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرکے انھیں ماڈل اسکول کے طورپر پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
ابتدائی مرحلے میں رواں مالی سال کے اختتام تک 2632 سرکاری اسکولوں کوتمام بنیادی سہولتیں فراہم کردی جائیں گی۔ مزید براں 6ہزاراساتذہ کی تقرری کے لیے تحریری ٹیسٹ آئی بی اے سکھرکے تحت آئندہ چندروزمیں لینے کا باقاعدہ اعلان کردیاجائے گا جبکہ پہلی سے آٹھویں جماعت کی تدریس اورامتحانی نظام کے معیارات کوجانچنے کے لیے ’’ڈسٹرکٹ اسسمنٹ بورڈ‘‘قائم کیاجارہاہے ‘‘۔ اس بات کا انکشاف صوبائی وزیرتعلیم سیدسردارعلی شاہ نے پیرکواپنے دفترمیں اخبارنویسوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیا۔
سیدسردارعلی شاہ نے بتایاکہ سندھ کے نصاب میں ایک بارپھرتبدیلی کرتے ہوئے اسے عصر حاضر اور ملکی تقاضوں کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے خلاف شامل مواد کو تعلیمی نصاب سے نکالنے کے لیے کیمبرج جبکہ تعلیمی بورڈزمحکمے کے حوالے کرنے کے لیے وزیراعلیٰ سندھ کوخط لکھ رہے ہیں۔ نجی اسکولوں کی شکایات کے خلاف وہ خودجلد بااثرنجی تعلیمی اداروں کادورہ شروع کررہے ہیں۔
وزیرتعلیم نے بتایاکہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی حالت زاراورتعلیم کے گرتے ہوئے معیارکوسنبھالنے کے لیے ایک ’’ایکشن پلان‘‘تیارکیاگیاہے ۔
صوبائی وزیرتعلیم کا کہنا تھا کہ سندھ میں 47 ہزارسرکاری اسکولوں کی عمارتیں موجودہیں جن میں 42لاکھ طلبا زیرتعلیم ہیں تاہم انھوں نے انکشاف کیاکہ ان 42لاکھ طلبا میں سے 80فیصدطلبا و طالبات محض 5 ہزارسرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں جبکہ 20فیصد طلبا 42 ہزار سرکاری اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں تاہم یہ اسکول مرمت ،تزئین وآرائش اور فرنیچر کی خریداری پر یکساں فنڈزلے رہے ہیں کیونکہ انجینیئرڈی اووزکے ساتھ ملکر تعمیرومرمت کے لیے ایسے اسکولوں کاانتخاب کرتے ہیں جہاں انرولمنٹ یاتوہے نہیں یانہ ہونے کے برابرہے جس کے سبب فنڈجاری ہونے کے باوجود ان اسکولوں میں تزئین وآرائش وتعمیر مرمت کا کام نہیں ہوتالیکن انرولمنٹ نہ ہونے کے سبب کوئی حکام کورپورٹ کرنے والا ہی نہیں ہوتا۔
سید سردار علی شاہ کاکہناتھاکہ سندھ کے ایک ایک گاؤں میں 5/5سرکاری اسکول ہیں ان میں سے بیشتردیہات میں چارچاراسکول ایک ایک کمرے میں بنے ہوئے ہیں سندھ میں 15ہزاراسکول ایسے ہیں جومحض ایک ایک کلاس روم پر مشتمل ہیں لہذامحکمہ اسکول ایجوکیشن نے ایک ایک کلاس روم پرمشتمل 15ہزاراسکول بند کرنے کافیصلہ کیاہے۔
ان اسکولوں میں ڈسپینسریزکے قیام کی سفارش کی جائے گی جبکہ اس کے برعکس 80فیصد انرولمنٹ کے حامل 5ہزارسرکاری اسکولوں میں سے پہلے مرحلے میں جون 2019تک 2632 سرکاری اسکولوں کوپینے کے پانی، بجلی ،چاردیواری اوربیت الخلا سمیت دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کردی جائیں گی۔
اس سلسلے میں سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ عالمی بینک کے فنڈزبھی استعمال ہونگے اس موقع پر انھوں نے اس امرکابھی انکشاف کیاکہ عالمی بینک نے ’’سندھ ایجوکیشن ریفارم پروگرام‘‘کی مدت میں آئندہ برس اگست 2019تک توسیع کردی ہے۔
واضح رہے کہ یہ پروگرام رواں برس دسمبرمیں ختم ہورہاتھا،وزیرتعلیم سیدسردارعلی شاہ نے مزیدبتایاکہ 6اسکول اساتذہ کی بھرتی کافیصلہ ہوچکاہے جن میں سے11سواساتذہ کاتقرر’’ارلی چائلڈ ہڈ ایجوکیشن‘‘کے لیے کیاجائے گاان کاتحریری ٹیسٹ آئی بی اے سکھرلے گاجس کاجلد اعلان متوقع ہے۔
وزیرتعلیم نے یہ بھی انکشاف کیاکہ سندھ میں انرولمنٹ کے لحاظ سے ہر 27طلبا پرایک استادموجودہے تاہم ان کی تقسیم مناسب نہیں ہے 90کی دہائی میں بھرتی کیے گئے سرکاری اسکول اساتذہ روزانہ کی بنیاد پر رٹائرہورہے ہیں اورہرروز4سے 5اساتذہ کی رٹائرمنٹ ہورہی ہے۔
سید سردار علی شاہ نے بتایاکہ محکمے کی اسامیوں پراہل افرادکوتعینات کرنے کے لیے جلدایک ’’منیجمنٹ پول‘‘بنایاجارہاہے محکمے میں منیجمنٹ کی 750کے قریب اسامیاں ہیں جن میں ڈائریکٹرز،ڈپٹی ڈائریکٹر،ٹی اووزاورڈی اووزسمیت دیگرشامل ہیں۔ اس کے لیے سلیکشن کمیٹی بناکرخواہشمند افرادکے انٹرویوکیے جائیں گے اورمنتخب افرادکی’’نیپا‘‘سے تربیت کرائی جائے گی۔
وزیرتعلیم کاکہناتھاکہ تعلیمی بورڈزمحکمہ یونیورسٹیزاینڈبورڈزسے محکمہ تعلیم کے حوالے کرنے کے لیے وہ وزیراعلیٰ سندھ کوخط لکھ رہے ہیں جبکہ تعلیمی بورڈزسے مارکس بٹنے کے کلچرکے تدارک کے لیے وہ سفارش کریں گے کہ تمام جامعات داخلوں کے لیے میرٹ طے کرتے وقت میٹرک اورانٹرکے مارکس کومیرٹ کا30فیصد جبکہ ان کے اپنے داخلہ ٹیسٹ کا70فیصدحصہ دیں تاکہ ذہین طلبا کی حق تلفی نہ ہو۔
سید سردار علی شاہ نے بتایاکہ پہلی سے آٹھویں جماعت کی تدریسی اورامتحانی نظام کی مانیٹرنگ کے لیے ڈسٹرک اسسمنٹ بورڈ بنائے جارہے ہیں جس میں ماہرین تعلیم اوررٹائراساتذہ شامل ہونگے انھیں کام کامعقول معاوضہ دیاجائے گایہ اسکولوں میں جاکرتدریس اورامتحانی نظام کی مانیٹرنگ کریں گے اورمستقبل میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی ’’اے سی آر‘‘طلبہ کی کارکردگی سے ہی مشروط ہوگی۔
نجی اسکولوں کے مسائل پرگفتگوان کاکہناتھاکہ وہ سٹی اسکول سمیت دیگر طاقتوراوربااثرنجی اسکولوں کے از خود دورے شروع کررہے ہیں اب جو دباؤ آئے گاوہ ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزپرنہیں ان پر آئے گاان کامحکمہ یاوہ خود نجی تعلیمی اداروں کے خلاف نہیں تاہم والدین کوریلیف دلاناان کی ترجیح ہے۔
ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنزکے حوالے سے وزیرتعلیم کا کہنا تھا کہ اس ڈائریکٹوریٹ کی استعدادبڑھارہے ہیں انسپیکشن کاونگ الگ کیاجارہاہے جو بااختیار ہو گا۔