یونیورسٹیوں سے انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے 34 نکاتی سفارشات
- May 6, 2017 11:22 pm PST
لاہور: تعلیمی زاویہ رپورٹ
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے زیر اہتمام لاہور میں امن و رواداری کے فروغ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جو آواری ہوٹل میں 19 اپریل سے 20 اپریل تک منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں صوبے بھر سے 27 یونیورسٹیوں سے وائس چانسلرز، ڈائریکٹرز نے شرکت کی تھی۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر نظام الدین جبکہ اختتامی تقریب میں وزیر ہائر ایجوکیشن سید رضا علی گیلانی نے شرکت کی جبکہ گورنر ہاؤس میں گورنر پنجاب نے بھی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے ملاقات کی تھی۔
کانفرنس میں چار ورکنگ گروپ بنائے گئے تھے جن کی قیادت میں محمد نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد زبیر، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حسن امیر شاہ، وائس چانسلر گورنمنٹ صادق کالج فار ویمن یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر طلعت افزاء، وائس چانسلر فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی ڈاکٹر ثمینہ قادر نے کی تھی۔ان گروپس کی جانب سے یہ سفارشات جمع کرائی گئی تھیں۔
ان سفارشات میں درج ذیل 34 نکات شامل ہیں؛
نیشنل ایکشن پلان کو ہر سطح پر نافذ کیا جائے۔
آئیڈیالوجی، زبان، نسل اور صنف کی بنیاد پر مارجنالائز نہیں کیا جانا چاہیے۔
آزادی اظہار رائے کی بنیاد پر مکالمہ کرنے کا ماحول فراہم کر کے اداروں میں نئے آئیڈیا کو فروغ دیا جائے مختلف سکول آف تھاٹ کے طلباء کے درمیان مکالمہ ضروری ہے، مکالمہ نہ ہونے کی بناء پر طلباء گروپ اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
سوشل سائنسز کے مضامین جن میں آرٹ اینڈ کلچر، لینگوئج اور ہیومینٹیز شامل ہیں یونیورسٹیوں میں ان کی ترویج کرنا ضروری ہے بجائے نیچرل سائنسز، میٹریل سائنسز اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھی جائے یونیورسٹیوں میں تھیوری، فلاسفی آف سائنس، ہسٹری آف سائنس کو بطور مضمون متعارف کرایا جائے۔
یونیورسٹیوں میں ادارہ جاتی مسائل کو فوری حل کیا جائے، نصاب میں امن، رواداری، سوک ایجوکیشن کے مضامین کو شامل کیا جائے تاکہ محض ربووٹک پروفیشنل پیدا کرنے کی بجائے اچھے انسان بھی پیدا ہو سکیں۔ یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس سروس سنٹرز قائم کیے جائیں تاکہ طلباء کو غیر نصابی سرگرمیوں اور سپورٹس میں ایک ہی پلیٹ فارم سے حصہ لینے کا موقع ملے۔ اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کے نصاب کو از سر نو مرتب کیا جائے۔
اساتذہ کو غیر سیاسی کرنے کے لیے فیکلٹی ٹریننگ اور پیشہ ورانہ پروگرامز منعقد کیے جائیں۔
یونیورسٹیوں کے گریجویٹس کو ملازمتیں فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے اور ایسے گریجویٹ پیدا کیے جائیں جس کی ملک کو ضرورت ہے۔
طلباء کے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے سائیکالوجیکل کونسلنگ سنٹرز یونیورسٹیوں میں بنائے جائیں۔
یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس سوسائٹیز کو بحال کیا جائے تاکہ طلباء کو صحت مند تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع ملے اور جامعات میں ایکٹو سٹیزن پروگرام متعارف کرائے جائیں۔
یونیورسٹی میں رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے پالیسی ساز اساتذہ، طلباء اور انتظامیہ کے درمیان مضبوط تعلق پیدا کیا جائے اور ان سے بھی مشاورت کی جائے۔
یونیورسٹیوں میں طلباء کے سامنے رد عمل کا بیانیہ پیش کرنے کی بجائے متبادل بیانیہ پیش کیا جائے۔
سکول اور کالج کی سطح پر ایسے اقدامات لیے جائیں جس سے متوازن اور روادار شخصیت پیدا ہوسکے۔
یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بیرونی گروپس اور سیاسی جماعتوں کی مداخلت بند کرائی جائے اور یونیورسٹیوں میں فرقہ واریت اور گروہیت کی بنیاد پر تمام تنظیموں پر پاپندی عائد ہونی چاہیے۔
یونیورسٹی انتظامیہ میرٹ پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کرے اور احتسابی کا موثر نظام بھی وضع کرے تاکہ تعلیمی ماحول میں بہتری لائی جاسکے۔
جامعات میں امن کے قیام کے لیے حکومت یونیورسٹی انتظامیہ کو مکمل معاونت فراہم کرے۔
جامعات میں مکالمہ کا کلچر، پلورل ازم کو عام کیا جائے۔
لٹریری فیسٹیول کے ذریعے سے طلباء میں کتب بینی کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کیمونٹی سروس پر زور دے اور داخلہ کے وقت اسے اہمیت دی جائے۔
جامعات کے درمیان امن اور رواداری پرفارمنگ آرٹ، تقریری مقابلے منعقد ہونے چاہیے۔
وائس چانسلرز کا کردار غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے اور وائس چانسلر تک اساتذہ، یونیورسٹی سٹاف اور طلباء کو پوری رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
اوریئنٹیشن اینڈ مانیٹرنگ کو اساتذہ، طلباء اور سٹاف کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔ یونیورسٹی میں اساتذہ، طلباء کے درمیان ہراسگی پر قابو پایا جائے۔ داخلی و خارجی دباؤ اور اثر پر قابو پایا جائے تاکہ طلباء یونیورسٹی میں خود کو محفوظ تصور کریں۔
اساتذہ اور ملازمین کی ٹریننگ کے لیے ڈیوٹیوں میں تبدیلیاں کی جائیں تاکہ تمام اساتذہ اور ملازمین کی ٹریننگ ہوسکے۔
لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کو یونیورسٹی انتظامیہ کنٹرول کرے، میرٹ اور بروقت فیصلوں کو انتظامیہ یقینی بنائے۔
یونیورسٹی میگزین، نیوز لیٹرز اور کیمپس ریڈیو کے ذریعے سے کیمونٹی تک رسائی حاصل کی جائے اور کیمونٹی آؤٹ ریچ پروگرام فوری طور پر یونیورسٹیوں میں شروع ہونے چاہیے۔
امن اور رواداری سے متعلق طلباء کی رائے کو جاننے کے لیے سروے کرایا جائے اور اُن کی یونیورسٹی سے کیا اُمیدیں ہیں اسے بھی جانا جائے۔ یہ سروے پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، آفس آف ریسرچ اینڈ انوویشن سنٹرز کی مشترکہ کاوشوں سے کرایا جائے اور اس کے لیے ہر یونیورسٹی سے کم از کم دس فیصد طلباء کو سوالنامہ پیش کیا جائے۔ یہ سروے یونیورسٹیوں میں امن و رواداری کے قیام کے حوالے سے تجاویز کو مرتب کرنے میں مزید معاون ہوگا۔
یونیورسٹیوں میں سوشل انکیوبیشن سنٹرز قائم کیے جائیں جہاں پر سماجی سائنسدان شدت پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے تجاویز پیش کریں اور ان سنٹرز کو پی ایچ ای سی اور یونیورسٹی انتظامیہ فنڈنگ کرے۔ سوشل سروس پراجیکٹس کرنے والے طلباء کے لیے بھی فنڈز کا بندوبست کیا جائے۔
والدین کی بھی ٹریننگ کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنے بچوں پر نظر رکھ سکتے ہیں اور کئی عرصہ تک گھر نہ جانے والے طلباء کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔ رات کو گھر تاخیر سے آنا اور گئے رات تک سوشل میڈیا استعمال کرنے پر بھی نظر رکھی جائے۔ والدین اپنے بچوں کے سماجی تعلقات پر بھی نظر رکھیں۔
اساتذہ کو طلباء کے لیے رول ماڈل ہونا چاہیے۔ اساتذہ کا پہناوا، بولنے کا انداز اور رویہ طلباء کے لیے مثالی ہونا چاہیے اور انہیں طلباء کے کیریکٹر بلڈنگ پر بھی زور دیا جائے۔ کلاس کے بعد اساتذہ پانچ سے دس منٹ لٹریری مباحثہ کرنے کے لیے طلباء کو وقت دیں۔ یہ غیر رسمی گفتگو انتہائی مفید ثابت ہوگی۔ اساتذہ کو تنقیدی سوچ کے فروغ کے لیے کلاس اوقات میں ہی وقت کو صرف کرنا چاہیے۔
یونیورسٹیوں کے پلے گراؤنڈز، جم، سوئمنگ پول کو بہترین رکھا جائے، غیر نصابی سرگرمیاں باقاعدگی سے منعقد کی جائیں۔ ٹوٹوریل گروپس بنائے جائیں۔
یونیورسٹیوں کی مساجد میں نماز جمعہ کے خطابات کو یونیورسٹی انتظامیہ مانیٹر کرے، ان کی بنیاد طلباء کے کیریکٹر بلڈنگ سے منسوب ہو۔ ان خطابات کے ذریعے سے یونیورسٹی میں متبادل بیانیہ پیش کیا جانا چاہیے۔
نامکمل اور مبہم خبریں جو میڈیا میں آئیں انہیں پیمرا کے ذریعے سے کنٹرول کیا جائے اور ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والی خبروں کی فوٹیج ہماری سماجی اخلاقیات کے مطابق ہوں۔
پنجاب ایچ ای سی یونیورسٹیوں میں امن، رواداری، شدت پسندی کے موضوعات پر ہونے والی ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنس کے لیے فنڈنگ فراہم کرے۔
عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے حالیہ واقعہ شدت پسندی کو جانچنے کے لیے اہم کیس سٹڈی ہے۔
یونیورسٹیوں کے انچارج سٹوڈنٹ آفیئرز، ڈائریکٹرز کی پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ٹریننگ پروگرام کو جاری رکھا جائے۔
سفارشات سو فیصد نہایت خرد افروزی پر مبنی ہیں سوال یہ ہے کہ ان پر عمل درامد کیسے ممکن بنایا جائے گا ؟