پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ اجلاس پر اساتذہ نے احتجاج کیوں کیا؟

  • June 8, 2017 12:53 pm PST
taleemizavia single page

لاہور: عاصم قریشی

پنجاب یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا اجلاس قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین کی زیر صدارت منعقد ہونے پر سول عدالت نے حکم امتناعی جاری کیا اور یونیورسٹی کو یہ اجلاس منعقد کرنے سے روک دیا گیا۔ عدالت نے یونیورسٹی رجسٹرار کو تیرہ جون عدالت پیش ہونے کا حکم بھی جاری کیا ہے۔

عدالت کی جانب سے حکم امتناعی پر یونیورسٹی کے اساتذہ نے سنڈیکیٹ اجلاس شروع ہونے سے پہلے احتجاجی مظاہرہ کیا اور سنڈیکیٹ ممبران کو غیر قانونی اجلاس سے متعلق آگاہ کیا۔

احتجاجی اساتذہ کا موقف ہے کہ یونیورسٹی غیر قانونی طور پر سنڈیکیٹ کا اجلاس منعقد کر رہی ہے اور یہ توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا۔ اساتذہ کو احتجاج سے روکنے کے لیے قائمقام وائس چانسلر اپنے دفتر سے باہر آئے اور اُنہوں نے اپنے موقف میں کہا کہ صرف بجٹ کی منظوری کےلیے یہ اجلاس کیا جارہا ہے۔

pu synd

احتجاجی اساتذہ کا ماننا ہے کہ سنڈیکیٹ کے چار ممبران کی مدت آج پوری ہورہی ہے اور اُن ممبران کے دباؤ میں آکر وائس چانسلر اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔ ان ممبران میں پروفیسر ڈاکٹر عامر اعجاز، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد رفیق، اسسٹنٹ پروفیسر جاوید سمیع اور لیکچرر شمائلہ گل شامل ہیں۔

احتجاج کے دوران یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈز نے سنڈیکیٹ روم کو گھیرے میں لے لیا۔ احتجاجی اساتذہ نے سنڈیکیٹ ممبران کو اس اجلاس کی قانونی حیثیت سے متعلق آگاہ کیا اور عدالت کے حکم امتناہی کی کاپی بھی فراہم کی۔

PUnjab

واضح رہے کہ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری ک ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر زید محمود نے سول کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ قائمقام وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین سنڈیکیٹ کا اجلاس منعقد کرنے کا قانونی اختیار نہیں رکھتے لہذا اس اجلاس کو روکاجائے جس پر عدالت نے سٹے آرڈر جاری کیا۔

پنجاب یونیورسٹی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر محبوب حسین کا کہنا ہے کہ اجلاس منعقد کرنے کے بعد جو بھی فیصلے کیے گئے وہ غیر قانونی تصور ہوں گے اور وائس چانسلر توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔

اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر کامران عابد نے الزام عائد کیا کہ پروفیسر ڈاکٹر منصور سرور کے دباؤ میں وائس چانسلر اجلاس کر رہے ہیں اور غیر قانونی طور پر یونیورسٹی کی آسامیوں کو ختم کرنے کا ایجنڈا بھی اجلاس میں شامل کیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اساتذہ کی تین سالہ مدت آج ختم ہورہی ہے اس لیے عدالت کے حکم کی پرواہ کیے بغیر سنڈیکیٹ کرائی جارہی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ سنڈیکیٹ کا اجلاس کرنے کے لیے دس ممبران کا کورم ہونا ضروری ہے کیونکہ سنڈیکیٹ میں مجموعی ممبرز کی تعداد 19 ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اجلاس میں بجٹ منظور ہوگیا تو یونیورسٹی کی تاریخ کا متنازعہ ترین اجلاس ہوگا۔

protest

احتجاج میں شریک خواتین اساتذہ نے انتظامیہ اور وائس چانسلر کے خلاف پلے کارڈز بھی اُٹھا رکھے تھے جس پر سنڈیکیٹ کے غیر قانونی اجلاس سے متعلق نعرے لکھے تھے۔

اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے واءس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین کے حکم پر میڈیا کے یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگائی گئی اور مختلف گیٹوں پر میڈیا کے نماءندوں کو دھکے دیے گئے تاہم احجتاجی اساتذہ کے احتجاج پر چند رپورٹر اور کیمرہ مین یونیورسٹی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گءے۔ تاہم وی سی آفس کے باہر بھی کیمرہ مینوں سے کیمرے چھیننے کی کوشش کی گئی تاہم اساتذہ کی موجودگی کے باعث کیمرہ مین اور رپورٹر اندر داخل ہوئے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *