پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں طالبہ کی خود کشی، طالبہ کی کزن غائب
- October 25, 2016 3:51 pm PST
لاہور
پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے ویمن سپورٹس ہاسٹل میں خود کشی کرنے والی طالبہ کا نام عائشہ فرقان بتایا جارہا ہے۔
عائشہ فرقان ایم ایس سی میں داخلہ کے لیے بطور اُمیدوار اٹک سے لاہور آئی تھی۔
خود کشی کرنے والی طالبہ عائشہ فرقان نے بطور کرکٹ کھلاڑی یونیورسٹی میں ٹرائل دے رکھا تھا۔ وہ اپنی کزن سعدیہ خالد کے ساتھ ہاسٹل میں تین دن سے رہائش پذیر تھی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کا سعدیہ خالد کے ساتھ فی الحال کوئی رابط نہیں ہورہا۔
سعدیہ خالد پنجاب یونیورسٹی میں بی ایس آنرز سپورٹس سائنسز میں آٹھوویں سمیسٹر کی طالبہ ہے۔
تفصیلات کے مطابق عائشہ فرقان صبح سے ہی ہاسٹل کے کمرہ نمبر ایک میں تھی اور جب دوپہر 12 بجے عائشہ کی سہلییاں ہاسٹل واپس آئیں تو کمرے کا دروازہ بند تھا۔ دروازہ نہ کھلنے پر ہاسٹل کی ملازمہ کو بلایا گیا جس کے بعد ان لڑکیوں کو کمرے کے پیچھے والی کھڑکی کی طرف بھیجا گیا۔
کھڑکی سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ عائشہ فرقان پنکھے کے ساتھ لٹک رہی ہے۔ جس کے بعد ویمن ہاسٹل کے چوکیدار کو بلایا گیا جس نے دروازہ توڑا۔ دروازہ توڑنے کے فوری بعد چیئرمین ہال کونسل ڈاکٹر عابد حسین کو اطلاع دی گئی۔
خود کشی کی خبر ملنے کے بعد تھانہ مسلم ٹاؤن کی پولیس کو اطلاع دی گئی اور ایک بجے تک پولیس یونیورسٹی ہاسٹل پہنچ چکی تھی۔
پولیس نے نعش کو اپنے قبضے میں لے کر ابتدائی تحقیقات مکمل کیں جس کے بعد فرانزک ٹیسٹ کے لیے کرائم سین کی گاڑیوں کو بلایا گیا۔
چیئرمین ہال کونسل ڈاکٹر عابد حسین نے اپنے سرکاری بیان میں کہا ہے کہ عائشہ فرقان نے پنکھے کے ساتھ لٹک کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ہے۔عابد حسین کے مطابق عائشہ کا موبائل فون صبح سویرے سے ہی بند تھا اور صبح سے ہی اُس کا کسی کے ساتھ رابط نہیں تھا۔
پولیس نے عائشہ فرقان کی نعش کاابتدائی پوسٹ مارٹم مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ عائشہ نے چھت پر لگے پنکھے کے ہُک کے ساتھ سفید دوپٹہ باندھ کر اُسے گلے کا پھندا بنایا۔
عائشہ فرقان کی نعش کا تفصیلی پوسٹ مارٹم کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے ڈیڈ ہاؤس بھجوائی گئی تاہم واقعہ کے چھ گھنٹے بعد عائشہ کے ورثاء لاہور پہنچ گئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد اُنہوں نے نعش کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کر دیا۔ پولیس کے مطابق خود کشی کی رپورٹ مکمل کرنے کے بعد نعش ورثاء کے حوالے کر دی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق عائشہ فرقان گھریلو پریشانی کے باعث ذہنی دباؤ کا شکار تھی اور دو دن سے اُس کا گھر والوں سے رابط بھی نہیں تھا۔ عائشہ کے اہل خانہ نے گھریلو پریشانی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
پولیس نے بتایا ہے کہ عائشہ کے والد فرقان حمید کئی سالوں سے نوکری کے سلسلے میں سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔
عائشہ فرقان کرکٹ کی بہترین کھلاڑی بتائی جارہی ہے وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت کرکٹ مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔
یونیورسٹی کے مطابق عائشہ فرقان کو پنجاب یونیورسٹی کی سپورٹس ڈائریکٹر شمسہ ہاشمی نے انٹر یونیورسٹی کیمپ ٹریننگ کے لیے بلایا تھا۔ جس کا آغاز آئندہ مہینے ہونا ہے۔
ڈائریکٹر سپورٹس شمسہ ہاشمی نے تعلیمی زاویہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عائشہ فرقان کا سپورٹس کی بنیاد پر داخلہ بھی کر لیا گیا تھا جس کی میرٹ لسٹ چند روز میں آویزاں کی جائے گی۔
شمسہ ہاشمی نے عائشہ فرقان کی خود کشی پر غم اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
میں آج کے افسوسناک واقعے پہ تبصرہ نہیں کرونگا کیونک یہ قبل از وقت ہوگا لیکن یونیورسٹی میں لڑکیوں کو کیسے ذہنی تناو کا شکار بنایا جاتاہے معمولی سی بات پر۔ شعبہ جات کے کلرک حضرات انہیں تعلق بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ اسکی ایک مثال ماس کیمونیکشن کے کلرک وقاص کی ہے جس کے پاس ڈائریکٹر سے بھی زیادہ اختیارات ہیں کیونکہ آج ایک لڑکی ڈائریکٹر اور کوارڈنیٹر سے دستخط کردہ درخواست لیکر گئی بجائے کہ وہ اس درخواست کو اپنے پاس رکھ لیتاالٹا یہ کہا کہ میں اسکو کینسل کرا دوں گا۔ اس معاملے پر وہ لڑکی آج ڈیپارٹمنٹ میں سارا دن روتی رہی کیونکہ اب اُس کی ڈگری کا مسئلہ تھا۔لڑکی نے مجھے بتایا کہ میرا جرم یہ ہے کہ میں ہنس کہ بات نہیں کرتی جس پر کئی بار وقاص نے کہا کہ کُڑی ہنس وی لیا کر۔ پورا ڈیپارٹ وقاص کے کرتوتوں کا گواہ ہے لیکن صرف اس لیے طلباء خاموش ہوجاتے ہیں کہ کسی اسٹیج پر یہ خرابی پیدا نہ کر دے۔اب سوال یہ ہے کہ وقاص کے خلاف ایکشن کون لے گا؟ یا پھر عزت دار لڑکیاں وقاص سے بلیک میل ہوتی رہیں گے۔
A very sad incident indeed. Certainly, girls students face extreme sexual harrasment from admn staff, clerk mafia, departmental and university authorities and many times, by male university teaching staff. Unfortunately, this issue was never taken up ifficially and no government and any law enforcement agency or criminal justice court took notice or action against it. No investigations have made so far over this issue and sadly , girls have no option but to face this shameful sries of harrasment.