سرکاری سکولوں کی نجکاری؛ وزیر اعلیٰ پنجاب کے نام گمنام خط

  • August 21, 2016 8:33 pm PST
taleemizavia single page

عزیزم خادم اعلیٰ، السلام علیکم

اگرچہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر زیارت کرنے اور استفادہ کا شوق ایک مدت سے ہے لیکن یہ حسرت دل میں رہ جانے کے باعث آج تک شرف نیاز نہیں مل سکا بس اب اک خط ہی آپ سے ملاقات کا آخری سہارا ٹھہرا ہے۔

اُمید کرتا ہوں آپ کے صاحبزادے حمزہ شہباز کی کاروبار زندگی پررونق اور بھر پورآباد ہوگی اور وہ پنجاب میں بھاری ذمہ داریوں کو بخوبی انجام پہنچانے میں دن رات مگن ہوں گے۔

آٹھ سال گزرنے کو ہیں کہ مجھے سکولوں، کالجوں اور جامعات میں اکثر جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ بسا اوقات آپ کی جماعت مسلم لیگ نواز کے تعلیمی اجتماعات میں شرکت کرنے کا فخر بھی حاصل ہے۔

مجھے یہ بھی اندیشہ ہے کہ میرے اس خط کو آپ تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ کے درباری اسے پھاڑ ہی نہ دیں بہرحال مجھے پھر بھی باری تعالی پر بھروسہ ہے کہ آپ تک یہ خط ضرور پہنچے گا۔

آپ تو عوامی خادم ہیں، عوام کے ووٹوں سے جیت کر اعلیٰ ترین منصب پر تین دفعہ فائز بھی ہوچکے ہیں آپ کے عظیم تر ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے۔

آپ جس عوام کے خادم ہیں میں بھی اسی عوام کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہوں ۔

برادرم؛آپ کی حکومت میں برق رفتاری سے جاری ترقیاتی منصوبوں کو دیکھ کر دُشمن آپ سے جلتے ہیں اللہ آپ کو اور زور بازو عطا کرے۔

تاہم بسا اوقات یہ رفتار شاید روشنی کی رفتار سے بھی تیز ہوجاتی ہے جس سے نقصان کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔

آپ کے ساتھ افسر شاہی، سیاسی مشیروں اور ماہرین کی بیٹھکوں کی خبریں سن سن کر میں ان تمام مشیروں سے ملنے کے لیے بے قرار ہوں جنہوں نے دھوکہ دہی سے تعلیمی شعبے کو تباہ کرنے کی ٹھان لی یہ سارے مشیر آپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔

جناب! آپ کی توجہ پانچ ہزار سرکاری سکولوں کو نجی شعبوں کے حوالے کرنے کی طرف دلانے کی جسارت کر رہا ہوں آپ کو ان مشیران نے سرکاری سکولوں کے بے شمار فائدے گنوائیں ہوں گے اور شاید اسے تعلیمی انقلاب سے بھی تعبیر کر دیا گیا ہو۔

مگر خادم اعلیٰ صاحب یہ منصوبہ زہر قاتل ثابت ہوگا اعداد وشمار کی ہیر پھیر کی گئی ہے یہ افسر شاہی، مشیروں اور مالی امداد دینے والے اداروں کا مشترکہ منصوبہ ہے
،
کم از کم آپ جیسے اعلیٰ ظرف اور بصیرت رکھنے والے خادم اعلیٰ کی آنکھوں میں مٹی ڈالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن یہ جرات بھی آپ کے درباریوں کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا تھا۔

عزیزم خادم اعلیٰ پنجاب!
آپ تو لاہوریوں کی پسندیدہ شخصیت اور پنجاب کی مشہور ترین ہستی ہیں اب عوام آپ کے دربار میں یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں۔

جان کی مان پاؤں تو عرض کروں جس پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے آپ کی حکومت نے پانچ ہزار سکولوں کو نجی اداروں اور سرمایہ داروں کے حوالے کیا جارہا ہے۔

اس سے حکومت نے شاید تعلیم کی مد سے سالانہ چار ارب ساٹھ کروڑ روپے کی بچت کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہے۔
کیا میں خادم اعلیٰ سے یہ پوچھنے کی بھی گستاخی کر سکتا ہوں کہ ریاست پرائمری تعلیم کی ذمہ داری سے کنارہ کشی کیوں اختیار کر رہی ہے؟

بچت کا منصوبہ تعلیم کی مد سے ہی کیوں بنایا گیا؟ خادم اعلیٰ ذرا ذمہ داران کو حاضر کر کے پوچھیں گے کہ آٹھ سالہ دور میں سرکاری سکولوں کی تعداد پہلے آٹھ ہزار کم ہوئی اور اب پانچ ہزار مزید بھی۔

جناب عزیزم؛ لاہور میں سڑکوں کی اُکھاڑ بچھاڑ اور پھرپیرس بنانے کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی نگرانی آپ بقلم خود کرتے ہیں تو تعلیمی اداروں کی نگرانی سے بیزاری کیسے پیدا ہوگئی؟

پھر ذرا اس کا بھی جواب عنائیت فرما دیں تو تھوڑی بہت ہمیں بھی تسلی ہوجائے گی اور ہم زندگی بھر آپ کی کرم نوازی کے مشکور بھی رہیں گے کہ سرکار کے پرائمری سکولوں کو نجی اداروں کے حوالے کرنے کے بعد ان سکولوں میں بی اے پاس اساتذہ کی تعیناتیوں سے بھلا معیار تعلیم کیسے بڑھے گا؟

پھر آپ کے ان مشیروں نے پالیسی پیپر میں یہ بھی تو دعویٰ کیا تھا کہ ان سکولوں کو بڑے بڑے پرائیویٹ سکولوں کے مالکان گود لیں گے لیکن یہ بھی حسرت ہی رہ گئی۔

بلکہ سکولوں پر غیر ملکی این جی اوز نظر جمائے بیٹھی ہیں کہ لگے ہاتھوں سرکاری سکولوں کی عمارتوں، اثاثہ جات پر قبضہ کر لو۔

میں تو خود بھی پریشان ہوں کہ حکومت کی نگرانی میں پندرہ سو روپے فی بچے پر سالانہ خرچ کرنے کے باوجود بھی معیار تعلیم نہیں بڑھا تو خرچ کو کم کر کے سات سو اسی روپے تک لانے سے کوالٹی ایجوکیشن کیسے بڑھے گی؟

سستی تعلیم کے چکر میں کہیں پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے بچوں پر سرکاری سکولوں کو تباہ کر کے تعلیم کے دروازے بند کرنے کی سازش تو نہیں کی جارہی۔

برادرم، یہ عوام بڑی بے بس ہے، بھوک کی ماری ہے، دو وقت کی روٹی کی تلاش میں تپتی دھوپ میں پنتالیس درجہ حرارت پر بھی کام کرنے سے نہیں گھبراتی۔

اس غریب عوام کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں اگر ان گھروں کے مرد بیمار ہوجائیں، جناب عوام بہت کسمپرسی میں ہے تھوڑا مظفر گڑھ، جلال پور، یزمان منڈی، روہی، چولستان کے تپتے سہرا اور بہاولپور کے گرد ونواح میں بسنے والے انسانوں کی معاشی بدحالی کا بھی احساس کر لیجئے۔

اُن کے پاس تو دینے کے لیے صرف ووٹ ہے جس کے بدلے میں اُنہیں صرف تسلیاں ملتی ہیں۔ اگر ان کے بچوں پر بھی تعلیم کے دروازے بند ہوئے تو وہ برباد ہوجائیں گے، نسلیں ذہنی اپاہج ہوجائیں گی۔

جناب خادم اعلیٰ ہم تو آپ کی دو ہزار پندرہ میں لگائی تعلیمی ایمرجنسی سے پُراُمید ہوئے تھے کہ اب عوام کا بھلا ہوگا ہمیں تھوڑا اطمینان ہوا تھا کہ مقامی حکومتوں میں ایجوکیشن اتھارٹیز کے قیام سے گلی محلوں کے آوارہ بچے بھی پڑھیں گے۔

سرکار اب سکولوں کی حالت کو مزید بدلے گی لیکن معصوم و بھولی عوام کو کیا معلوم تھا کہ آپ کے مشیران آستین کے سانپ ثابت ہوں گے کہ عوام کو اس پالیسی کا بڑا جھٹکا سرکاری سکولوں کی نجکاری کی صورت میں لگے گا۔

جناب جس پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو آپ لاڈلے بچے کی طرح پیار کرتے ہیں آٹھ سالوں سے اس بچے کے ناز نخرے اُٹھا رہے ہیں اب یہ بچہ بگڑتا جارہا ہے اس پر بھی ذرا نگرانی رکھیئے یہ آپ کی توجہ کا منتظر ہے۔

ایک مبارکبار بھی آپ کو پیش کر دوں کہ شاید آپ کی اجازت کے تحت ہی پیف نے لاہور کے سینتیس سرکاری سکولوں کو اخوت فاؤنڈیشن کے حوالے کر دیا ہے اب آپ کی حکومت بری الزمہ ہوگئی یہ وہی اخوت فاؤنڈیشن ہے جس کے چیئرمین سے آپ بہت پیار کرتے ہیں۔

شکوے گلے تو پنجاب کی ثقافتی روایات کا حصہ ہیں اور ہم اپنی روایات کی پاسداری کرنے میں پنجابی مرد و خواتین اپنی جان کو بھی جوکھم میں ڈالنے سے گریزاں نہیں کرتے اس لیے موقع ملتے ہی آپ سے شکوے بھی کر رہا ہوں حالانکہ میری اتنی حیثیت کہاں۔

خط میں ایک اور عرضی بھی ہے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آپ کے اقوال زریں پڑھنے کو روز ملتے ہیں اگر کسی روز فرصت ملے تو سکولوں کی تباہی میں ملوث سیاستدانوں اور افسر شاہی کی نااہلیت پر بھی کوئی خوبصورت تبصرہ کر دیں جو اخبار کی زینت بن کر ہم عوام تک پہنچ سکے۔

خادم اعلیٰ اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہونے پر مجھے آپ کے صوبے کا باسی ہونے پر بھی فخر ہے۔
مگر احساس ندامت بھی بڑھتا جارہا ہے کہ کئی سالوں سے سرکاری سکولوں کی خستہ حالی، ٹاٹوں پر بیٹھے بچوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنے کے باوجود آپ تک ان کی حالت کی تصویر کشی کرنے کے لیے خط لکھنے میں اتنی تاخیر
کر دی جس کے لیے میں آپ سے پیشگی معذرت کا طلبگار ہوں۔

آخر میں آپ سے انتہائی مودبانہ گزارش ہے کہ سکولوں میں مائیکل باربر کی سفارش پر تجربات کے سلسلے کو اب روک دیجیئے،

ہمیں اپنی قوم کے معصوم بچوں کو انگریزی زبان سیکھا کر مہذب بنانے کی کوشش کو ترک کرناہوگا اُردو میڈیم سکولوں کو انگریزی میڈیم میں بدلنے کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں کہ بچوں کو نہ تو انگریزی زبان سے شناسائی ہوئی اور نہ ہی اُردو زبان پر عبور ہوا۔

میری قلم دوات میں سیاہی بھی ختم ہونے کو ہے لیکن اچانک یاد آیا کہ تھوڑی یاد دہانی کراتا چلوں۔
کہ آپ کے گزشتہ دور میں پنجاب کے چھیبس کالجوں کو خود مختار کرنے کا منصوبہ نافذ تو ہوا لیکن ان کالجوں کو

خود مختاری تو نہ ملی لیکن محکمہ ہائر ایجوکیشن نے سرپرستی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
آپ کے حکم پر سکولوں میں بھی تو کمپیوٹر لیبارٹریاں بنیں تھیں لیکن عالم پناہ وہ لیبز اسی لیے بند پڑی ہیں کہ
وہاں کمپیوٹر کے اساتذہ ہی تعینات نہیں ہوئے اور اب ان کمپیوٹرز کو کپڑے پہنا کر کمرے میں بند رکھا ہوا ہے جیسے قیدی ہوں۔

ذرا اپنے مشیروں کو تھوڑی سی ڈانٹ ہی پلا دیں کہ جھوٹ کا سہارا لیکر آپ کو غلط سرکاری رپورٹس پیش کر کے فخزیہ انداز میں آپ سے شاباشی کیوں لیتے ہیں؟

محترم خادم اعلیٰ! میرے اس خط کو بھی ملاقات ہی تصور کیجئے، آپ کا مرہون ہوں کہ اس خط کو آپ نے خندہ پیشانی کے ساتھ بغور پڑھا۔

میری کوئی بات گراں گزری ہو تو معاف کیجیئے گا۔ آپ کا دیدار کرنے کی خواہش ہمیشہ سینے میں زندہ رہے گی۔ آپ کی لمبی عمر اور صحت مندی کی دعاؤں کے ساتھ

آپ کا خیر اندیش
خدا بخش، چشتیاں، پنجاب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *