علمی پسماندگی؛ پشاورکی30سال پرانی کتابوں کی دکان بند
- August 24, 2016 1:41 pm PST
گل عالم خان، پشاور
پشاور کے یونیورسٹی روڈ پر کتابوں کی دکانیں آہستہ آہستہ بند ہورہی ہیں۔
اسی سٹرک پر اُنیس سو بانوے میں کھولا جانے والا شاہین بک سٹور بھی اب بند ہونے کے قریب ہے۔ کتابوں کی فروخت مسلسل گرنے کے باعث یہ دکان بند کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔
دکان کے مالک مصطفیٰ کمال نے اسے بند کرنے سے متعلق سٹور کے داخلی دروازے کے باہر پوسٹر لگا دیا ہے۔
پوسٹر کے مطابق کتابوں سے شغف رکھنے والوں کی تعداد کم ہونے اور ان کی فروخت نہ ہونے پر دکان دیوالیہ ہوگئی ہے۔ کتابوں کا فروخت نہ ہونا ہمارے معاشرے کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر موجود دو منزلہ شاہین بک سٹور پر کتابوں کی قیمتوں پر پچاس فیصد رعائیت لگا دی گئی ہے لیکن اس کے باوجود ان کتابوں کا کوئی خریدار نہیں ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر موجود اس مصروف شاہراہ پر نامور برانڈ کے کپڑوں، جوتوں اور دیگر اشیاء کی دکانوں پر تو بہت رش رہتا ہے لیکن اس کتاب کی دکان میں داخل ہونے کے لیے کسی کے پاس فرصت نہیں۔
حتیٰ کہ دکان کے داخلی دروازے پر لگے پوسٹر پر بھی کسی کی توجہ نہیں۔
مصفطیٰ کمال کے بیٹے ریاض گل نے تعلیمی زاویہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پورا معاشرہ مجموعی طور پر اخلاقی گراوٹ، بے حسی، شدت پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ جہالت ہے۔
ریاض گل کے مطابق لوگوں کو شاید اب پڑھنے کا شوق نہیں رہا، لائبریریز اور بک سٹورز اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ یہاں تو کوئی میگزین کا بھی خریدار نہیں رہا۔
ریاض گل کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا جب یونیورسٹی ٹاؤن سے طلباء اور غیر ملکیوں کا اس دکان پر رش رہتا تھا، خواتین فیشن میگزین شوق سے خریدتی تھیں لیکن یہ رجحان اب ختم ہوگیا ہے۔
ریاض گل کے مطابق شدت پسندی کے بڑھنے کی وجہ سے پڑھے لکھے خاندان یہاں سے دوسرے شہروں میں منتقل ہورہے ہیں اور دو ہزار پانچ میں یہاں کتابوں کی فروخت اچانک کم ہونا شروع ہوگئی۔
دو ہزار سات میں پشاور میں لاء اینڈ آرڈر کی بگڑتی صورتحال کے باعث سعید بک بنک کے مالک نے یہاں سے اپنی دکان بند کر کے اسلام آباد منتقل کر دی ہے۔
یونیورسٹی روڈ پر صدر کے پاس ہی لندن بک ایجنسی اب ادب، تاریخ، شاعری کی کتابوں کی فروخت بند کر کے صرف تدریسی کتابیں فروخت کر رہا ہے۔
شاہین بک سٹور کا مالک بھی مستقبل میں کتابوں کی دکان ختم کر کے اپنے کاروبار کو صرف سٹیشنری تک محدود کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ریاض گل نے پریشانی کی کیفیت میں بتایا ہے کہ نوے کی دہائی میں دو سو سے لیکر تین سو تک میگزین فروخت ہوتے تھے لیکن اب ایک بھی فروخت نہیں ہوتا۔
والدین اپنے بچوں کو ٹیبلیٹ، کمپیوٹرز، موبائل فون اورلیپ ٹاپ لے کر دینے کو تو ترجیح دیتے ہیں لیکن بچوں کو کتابیں خرید کر دینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔