معاشی بھنور میں پھنسی پاکستانی جامعات

  • September 29, 2019 1:52 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر محبوب حسین

قوموں کی ترقی میں جونقطہ بنیادی محرک کا کردار ادا کرتا ہے وہ علم ہے ، ترقی اور تنزلی میں بنیادی لائن تعلیم ہی کھینچتی ہے، کسی بھی ریاست کا تعلیمی نظام اس کے ماضی اور حال کو جانچنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کو پرکھنے کا ذریعہ بھی ہوتا ہے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ، جہاں کسی قوم نے اپنے تعلیمی نظام کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی وہ قوموں کی صف میں ضرور آگے بڑھی، اور جس نے اس حقیقت سے پہلو تہی کی وہ پستی اور گمنامی کے گڑھے میں گر گئی، کیس سٹڈی کے طور پر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔

اس پس منظر میں بحثیت قوم اگر ہم اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنا نظام تعلیم مصلحتوں کا شکار نظر آتا ہے، ہم نے اپنی سات دہایئوں پر مشتمل تاریخ میں اپنے تعلیمی اداروں کی تعداد میں تو اضافہ کر لیا، اگر ہم علم کی تخلیق کے مراکز جامعات کی بات کریں تو آزادی کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے میں صرف دو یونیورسٹیاں قائم تھیں ایک مشرقی بنگال( ڈھاکہ) میں اور دوسری مغربی پنجاب (لاہور) میں، آج بہتر برس گزرنے کے بعد ملک میں جہاں جامعات کی تعداد میں خاصا اضافہ ہو چکا ہے۔ ( آج 117 سرکاری اور 79 پرائیویٹ یونیورسٹیز قائم ہیں)۔ وہاں تعلیمی مسائل بھی بہت بڑھ چکے ہیں ان مسائل کی ایک بنیادی وجہ حکومتوں کی ترجیحات کی فہرست میں تعلیم کا نچلے درجہ پر ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان جامعات میں وائس چانسلرز کی تقرری کا معاملہ ہو یا وائس چانسلرز سرچ کمیٹیوں کی تشکیل، نئی جامعات کے قیام کا معاملہ ہو یا پرانی یونیورسٹیوں کے معیار کی بات۔

اس نظام کے مرکز و محور “استاد” کی تقرری کا معاملہ ہو تو وہ بھی ٹی ٹی ایس اور بی پی ایس کی بحث میں الجھا ہوا نظر آئے گا، یہ تمام معاملات اپنی جگہ پر توجہ کے متقاضی تو تھے ہی، مگر ان نا مساعد حالات کے باوجود پاکستانی یونیورسٹیاں واحد شعبہ ہیں جنھوں نے گزشتہ چند سالوں میں شاندار ترقی کا سفر طے کیا اور پاکستانی یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی رینکنگ میں اضافہ ہوا۔

عالمی ادارے پاکستان کی اعلی تعلیم میں ترقی کے سفر کو سراہ رہے تھے، گزشتہ سالوں ہم نے اپنے سے سات گناہ بڑے ہمسائے سے زیادہ، تحقیقی مقالات تخلیق کیے تھے، تاہم موجودہ حکومت کی پالیسیاں یونیورسٹیوں کی ترقی پر کاری ضرب لگا رہی ہیں اور ترقی کا یہ سارا عمل واپس ہونے کا خدشہ ہے، اور اس سے بڑھ کر اب ان سرکاری جامعات کی بقا کامسلئہ پیدا ہو گیا ہے، ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ چکا ہے،پہلے سے کم تعلیمی بجٹ میں مزید کمی کر دی گئی ہے۔

ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف اڑھای فیصد تعلیم کی مد میں مختص کرتے تھے جس کی شرح زکواہ کے برابر تھی اب حکومت وہ بھی دینے کو تیار نہیں، اس صورتحال میں یونیورسٹیوں کی عالمی صف بندی میں ٹاپ 500 کی رینکنگ میں پہنچنے کا ہمارا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا، کیونکہ ٹریول گرانٹ بند ہونے سے ہمارے ریسرچرزکو اپنی تحقیق دنیا کے سامنے رکھنے میں دشواری آرہی ہے، ریسرچ فنڈنگ نہ ہونے سے ہماری تحقیق معیاری مقالوں میں شائع نہیں ہو پا رہی، اور نہ ہی ہمارے طلبا عالمی اداروں سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ پی ایچ ڈی کرنے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں گے،ایسے ریسرچرز کی سیکنڑوں درخواستیں گزشتہ کئی مہینوں سے التوا کا شکار ہیں۔

دوسری طرف ہمارے ملک میں شرح خواندگی پہلے ہی کم ہے اور اگر ہم اعلی تعلیم کی بات کریں تو ہمارے ملک میں آبادی کا صرف ایک فیصد طبقہ یونیورسٹی میں تعلیم کے حصول کے لیے پہنچتا ہے، اگر ہم اس ایک فیصد کو بھی تعلیم نہیں دے سکتے تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ کہیں ہم کسی سازش کا شکار تو نہیں ہو رہے، کہں ہماری جامعات کو اسی طرح تباہ تو نہیں کیا جارہا جس طرح ہمارے سرکاری سکول برباد ہوئے۔ آج حالت یہ ہے کہ ملک کی چھوٹے اور درمیانے درجے کی جامعات کے پاس اپنے اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے فنڈز نہیں، ان سرکاری جامعات کے اساتذہ نے گزشتہ دنوں احتجاج کے دوران علامتی کشکول اٹھائے، ملک کے مخدوش معاشی حالات اپنی جگہ پر مگر ایجوکیشن کے بجٹ میں کٹ سے اس تعلیم نظام کی بقا کے حوالے سے بہت سے سوالات ابھر رہے ہیں۔

جامعات جو کہ آزادی اظہار کا موثر فورم ہوا کرتی ہیں ان کی اٹانومی پر کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ اساتذہ غیر ضروری امور میں الجھنے کی بجائے علم و تحقیق پر بھر پور توجہ دیں اورملک میں اعلی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں اپنا کردار یکسوئی سے انجام دے سکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنی جگہ بنا سکیں۔


mehboob hussain final

ڈاکٹر محبوب حسین شعبہ تاریخ، پنجاب یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں، انھوں نے آکسفرڈ یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔

  1. جناب محبوب حسین
    آپ کا ممقالہ پڑھا ہے آپ نے بہت اچھا لکھا ہے مگر کیا اسی یونیورسٹی کے نمائندے ہوکر آپ کچھ تھوڑی تبدیلی لا پائے ہیں…. آخر رکاوٹ کہاں ہے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *