یہ فیضان نظر ہے یا مکتب کی کرامات

  • September 23, 2017 2:45 pm PST
taleemizavia single page

علی احمد جان

ہماری یونیورسٹیوں میں انتہا پسندی کا رجحان کوئی نئی بات نہیں ، کبھی قوم پرستی کے نام پر یہاں اسلحہ کا ڈھیر تھا تو کبھی مذہب کے نام پر ۔ گو جماعت اسلامی کو لاہور شہر کا دل کہلانے والے قومی اسمبلی کے حلقہ 120 میں چند سو ووٹوں سے زیادہ نہ مل سکے لیکن پنجاب یونیورسٹی میں اس کی طفیلی طلبہ تنظیم اب بھی نوجوان نسل پر اپنا دھاک بٹھائے ہوئے ہے۔

آدھی صدی ہونے کو ہے پنجاب کی سب سے بڑی مادر علمی پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی جمیعت طلباء کا اثر نفوز کم نہ کیا جا سکا۔ عمران خان کا اس یونیورسٹی میں پہلی بار آمد پر چھترول ہوا تو اس رویے کی حوصلہ شکنی یا اس کے خلاف راست اقدام اٹھانے کے بجائے اسی عمران خان نے جب اقتدار ملا تو خیبرپختونخوا میں پورا رتعلیمی نظام ہی جماعت اسلامی کے رحم و کرم پر چھوڑدیا۔

کبھی یہاں کے ہاسٹلوں سے ہین الاقوامی طور پر مطلوب دہشت گرد مل جاتے ہیں تو کبھی کسی اور ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے یہاں سے ملتے ہیں۔ لڑکیوں پر تیزاب پھینکنا اور لڑکے اور لڑکیوں کے آپس میں بیٹھ کر باتین کرنے پر خود ہی عدالت لگاکر سزائیں دینا یہاں کا ایک وطیرہ رہا ہے۔

کراچی یونیورسٹی جہاں سے ایک مبینہ دہشت کا تعلق جوڑا جارہا ہے تو یہاں بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ایسی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ یہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا رجحان کوئی نیانہیں بلکہ یہ دہائیوں پراناسلسلہ ہے۔

گزشتہ دو عشروں سے ملک میں مذہبی تعلیم دینے والے لاکھوں مدارس پر ایک بحث جاری ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ ان مدارس میں حقیقی تعلیم دی جاری ہے اور یہ مدارس ملک کے غریب طبقے کے لئے علم حاصل کرنے کا واحد زریعہ ہیں تو دوسرا بیانیہ ہے کہ ان مدارس میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ دیا جارہا ہے۔

ان میں سے بیشتر مدارس پر جہاد کے نام پر نوجوانوں کو قتل و غارت کی تربیت دینے اور ان کو اس میں دھکیلنے کا بھی الزام ہے۔ ابھی تک یہ بحث سمیٹی نہیں جاسکی اور نہ ہی ہماری صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کو ان مدارس کی کل تعداد کا صحیح اندازہ ہے اور نہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے بارے میں اعداد و شمار دستیاب ہیں۔

میرا اپنا خود نکتہ نظر مدارس میں علم و آگاہی کے بجائے انتہا پسندی کو فروغ دینے اور یہاں نوجوانوں کی کردار سازی کے بجائے ان کو فرقہ ورانہ تعصب کی تربیت کا الزام لگانے والوں کے ساتھ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ مجھے بہت کم لوگ ایسے ملے جو ان مدارس سے پڑھ لکھ کر معاشرے میں علمی لحاظ سے کسی نمایاں مقام تک پہنچے ہوں۔

بہت سارے لوگ مجھے وہ ملے جنھوں نے ابتدائی طور پر حفظ یا ناظرہ کی تعلیم دینی مدارس سے حاصل کی ہے اور بعد میں جدید تعلیمی اداروں سے پڑھ کر خود کو مدارس سے جوڑ لیا ہے۔ میرے نکتہ نظر کو بہت زیادہ تقویت ملی جب اپنے علاقے سے دینی مدارس میں پڑھنے کے لئے جانے والوں کاغائب ہوتا سناجن کے متعلق خبر آئی کہ وہ خوست کے محاز پر مارے گئے یا میران شاہ میں ڈرون حملے کا شکار ہوئے۔

مدارس سے جو پڑھ کر واپس آئے ان کے روئے اور طرز عمل نے بھی میرے ذہن میں مدارس کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کیا ہے۔

میرا یہ نکتہ نظر اس وقت بدلا جب میں محمد نذیر سے ملا جو آج کل ترکی کے ایک جامعہ میں بطور استاد پڑھارہے ہیں۔ ان کی تقرری پہلے او آئی سی کے زیر اہتمام مقابلے کے امتحان کے بعد قظر میں ہوئی تھی ہے جس میں پورے ملک سے چھ ہزار علماء نے حصہ لیا۔ بعد میں ترکی کے علمأ کے اسرار پر وہ قطر چھوڑ کر ترکی چلے گئے ۔ نذیر پڑھانے کے ساتھ خود اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے اور پی ایچ ڈی کا طالب علم بھی ہے۔ میرا نکتہ نظر کیوں کر بدلا اس بات کو میں محمد نذیر کی کہانی سنائے بغیر آپ کو نہیں سمجھا سکتا۔

جانے اس کا نام کیا تھا لیکن گاؤں والے بذلہ سنجی میں اس کو جرمن کہتے تھے۔ جرمن اونچے قد ،مظبوط ہڈیوں اور بڑی جسامت کا مالک تھا ۔ اس کا اصل میں تعلق ضلع کوہستان کی وادی کاندھیا سے تھا جس کو گلگت بلتستان کے لوگ ًکھِلی ًکہتے ہیں اس نسبت سے یہاں کے لوگوں کو کھِلوچو اور ان کے بولی جانے والی کوہستانی زبان کو کھِلیچا کہتے ہیں۔

جرمن اس گاؤں میں اپنی بیوی اور بیٹوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی ملکتی زرعی اراضی سے آمدن انتہائی قلیل تھی جس کی وجہ سے جرمن اور اس کے بیٹے ہر وقت محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔

جرمن کی ایک ساس بھی تھی جس کو مقامی زبان نہیں آتی تھی جب کوئی پوچھتا تو وہ صرف یہ کہتی تھی ً مہ کھِلی تھوںً (میں کھِلی سے ہوں) اس وجہ سے ان کا بھی نام کھِلی تھوں پڑ گیا اور ہم ان کو کھِلی تھوں دادی کہتے تھے۔

یہ دادی اپنے پڑ پوتے پوتیوں کو ساتھ لیکر دن بھر گاؤں میں متمول گھرانوں سے کھانے پینے اور کپڑے کا تقاضا کرتی پھرتی تھی۔ ہماری دادی اس خاتون کو جب بھی آتی کچھ نہ کچھ ضرور دیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے ان کا عموماً ہمارے ہاں آنا جارہتا تھا۔

اس کے بعد حالات بدل گئے ہم بھی پہلے بغرض تعلیم اور بعد میں بغرض روزگار پردیسی ہوگئے اور بہت کم گاؤں والوں سے رابطہ رہا۔ ایک دن فیس بک پر محمد نزیر سے ملاقات اور پھر بات ہوئی جو عربی، انگریزی اور اردو زبانوں میں اہل زبان کی طرح لکھتے ہیں اور دینی، معاشرتی و سماجی مسائل پر ان کی گرفت بہت اچھی ہے۔

ان کے کالم اردو میں یہاں کے اخبارات میں چھپنے کے ساتھ عربی میں سعودی عرب اور عرب امارات میں بھی چھپتے ہیں ۔ ان سے لکھنے لکھانے پر بات چلی اور بات بڑھتے بڑھتے ان کے تعارف پر گئی تو معلوم یہ ہوا کہ وہ میرے گاؤں کےاس بوڑھے جرمن کہلانے والے کے پوتے ہیں۔ میرا دوسرا سوال تھا کہ انھوں نے تعلیم کہاں سے حاصل کی تو ان کا کہنا تھا کہ مدرسے کے علاوہ وہ تعلیم کہاں سے حاصل کر سکتا تھا۔

نذیر کا کہنا ہے کہ ان کے دادا کو تعلیم سے بہت محبت تھی لیکن ان کے پاس کتاب خریدنے کے بھی پیسے نہیں تھے۔ وہ اپنے پوتوں کو سکول نہیں بھیج سکے تو اس نے ان کو مسجد بھیجنا شروع کیا جہاں سپارے رکھے ہوئے ہوتے تھے اور مولوی ان سپاروں سے بچوں کو سبق پڑھایا کرتا تھا۔

جب حرف شناسی ہوئی اور قران کا ناظرہ کسی حد تک ہو چکا تو نزیر کراچی چلاگیا جہاں اس نے محنت مزدوری کے ساتھ ساتھ ایک مدرسے میں اپنی تعلیم جاری رکھی۔ تعلیم کے دوران نزیر نے اپنے والدین کی مالی امداد بھی جاری رکھی اور نمایاں پوزیشن کے ساتھ اس نے دورہ حدیث اور مفتی کا کورس مکمل کر لیا۔

تعلیم سے فراغت کے بعد ہی ان کو اپنی قابلیت کی وجہ سے اسلام آباد میں مفتی کا عہدہ مل گیا۔ اس دوران او آئی سی کی جانب سےقطر کے لئے اساتذہ کی بھرتی کے کئے اشتہار آگیا جس میں نذیر نے چھ ہزار لوگوں میں اپنی جگہ بنالی اور آج کل ترکی کی ایک جامعہ میں پڑھاتے ہیں۔

ان کی قابلیت اور علم پر ان کے دلائل کی وجہ سے نہ صرف ترکی کے علمی اور سرکاری حلقوں میں ان کی عزت ہے بلکہ عرب ممالک کے دانشور، علمأ اور ادباء بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

نذیر اپنی بیوی اورپانچ بچوں سمیت ترکی میں مقیم ہیں اور اپنے بچوں کو ان کی مرضی سےاعلیٰ تعلیم دلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ چھٹیوں پر سالانہ گاؤں جاتے ہیں اور یہاں زیادہ تر سماجی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ لوگوں کے بیچ ناراضیاں دور کرانا ، صلح صفائی کروانا، درس و تدریس ان کا محبوب مشغلہ ہے۔

نذیر نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی اور نہ اس کو کالج نصیب اور نہ ہی یونیورسٹی سے واسطہ پڑھا اور ان کی تعلیم پر کبھی کوئی پیسہ خرچ نہ ہونے کے باوجود وہ آج زندگی کے ایک نمایاں مقام پر پہنچے ہیں۔ وہ انگریزی، اردو اور عربی میں شستہ اسلوب کے ساتھ لکھتے ہیں ۔

زبان کے صرف و نحو پر عبور کی وجہ سے ان کے کلام میں ایک ایسی چاشنی ہے کہ اہل زبان ہمہ تن گوش ان کو سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہمارے آس پاس سینکڑوں اور ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے بہترین سکولوں سے تعلیم حاصل کی ، اچھے کالجوں اور یونیوورسٹیوں سے پڑھنے کے باوجود جب وہ چار جملے اردو میں لکھتے ہیں تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ انھوں نے انگریزی میڈیم میں پڑھا ہے جب انگریزی لکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ انھوں نے کبھی سکول کی شکل نہیں دیکھی۔

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کسی مدرسے ، سکول یا کالج کا قصور یا کمال سے زیادہ ایک طالب علم کا اپنا شوق اور اس کی علم کی طلب پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔ نذیر کا دادا جرمن کوئی پڑھا لکھا اآدمی نہیں تھا لیکن وہ علم کی فضیلت سے آگاہ تھا کہ اس کے خاندان کی قسمت اگر کوئی شے بدل سکتی ہے تو وہ علم ہے۔ اس نے اس بات کو نزیر اور اس کے بھایئوں کو سمجھادی جنھوں نے اپنے دادا کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔

اگر ہم اپنے بچوں کو مہنگے سکولوں میں پڑھا کر ان کو یہ نہیں سمجھا سکتے ہیں کہ علم اور تعلیم میں فرق کیا ہے تو ہمارے بچے تعلیم یافتہ ہونگے مگر اہل علم میں سے نہیں۔


Ali Jan

علی احمد جان کا تعلق گلگت بلتستان ہے، وہ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ وہ غیر سرکاری ادارے لیڈ پاکستان کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *