آغا خان یونیورسٹی کا امریکہ کے ساتھ ملکر مصنوعی ذہانت پر پراجیکٹ شروع

  • May 30, 2018 1:58 pm PST
taleemizavia single page

کراچی

آغا خان یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ورجینیا کے تحقیق کار مشترکہ طور پر ایک جامع تحقیق پر کام کا آغاز کر رہے ہیں جس میں آنتوں کے ایک پیچیدہ مرض انوائرنمنٹل انٹیرک ڈسفنکشن ای ای ڈی کے بہتر فہم کے لیے آرٹیفیشئل انٹیلی جنس مصنوعی ذہانت سے مدد لی جائے گی۔

ای ای ڈی کوعمومی طور پر غربت طبقوں میں پائی جانے والی بیماری سمجھا جاتا ہے اور اس کے علاج اور فہم کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ ای ای ڈی کم آمدنی والے ممالک مثلاً پاکستان میں پائی جاتی ہے جہاں افراد کو پینے کے لیےدستیاب پانی آلودہ ہوتا ہے اور نکاسی آب کا نظام بھی خراب ہوتا ہے۔

ای ای ڈی کے باعث آنتوں کی اہم غذائی اجزا جذب کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی ممکنہ نشوونما میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور کئی بیماریوں کے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

اعدادوشمار کے ماہر سائنسدان پہلے ہی اس امر کا عملی مظاہرہ کر چکے ہیں کہ کس طرح ‘ذہین’ کمپیوٹرز ایکس رے اور بائیوپسی کی مدد سے مرض کا اندازہ لگانے میں ماہر ریڈلوجسٹس اور پیتھالوجسٹس کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ورجینیا میں پیڈیاٹرکس کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ثنا سید اور اے کے یو میں ریسرچ کے ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر اسد علی مصنوعی ذہانت کی ایک قسم ‘ڈیپ لرننگ’ کو کمپیوٹرز کو تربیت دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ کمپیوٹرز اس تربیت کے بعد انسانی آنت کی گہرائیوں میں موجود ٹشوز کی خوردبینی تصاویر کا جائزہ لے سکیں گے۔

اس تحقیقی اقدام کے لیے مالی معاونت یونیورسٹی آف ورجینیا یو وی اے کی انجینیئرنگ ان میڈیسن گرانٹ فراہم کر رہی ہے اور اسے یو وی اے کے ڈیٹا سائنس انسٹیٹیوٹ کے ساتھ اشتراک میں سرانجام دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے دوران کمپیوٹرز آنت کے خلیات کے حجم، شکل اور ساخت کو متعدد نمبری گروہ بندیوں میں توڑ کر ان کا جائزہ لے سکیں گے۔

تصویر کے ننھے ترین یونٹ کو پکسل کہا جاتا ہے۔ ہر نمبر ایک پکسل کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور جیسے جیسے پروگرام مزید تصاویر کو اسکین کرتا ہے یہ کسی بھی غیر معمولی گروہ بندی یا پیٹرن کو نوٹس کر لیتا ہے۔ نتیجتاً کمپیوٹر یہ جان جاتا ہے کہ کس طرح صحتمند آنت اور ای ای ڈی سے متاثرہ آنت کا موازنہ کرنا ہے اور کس طرح ان عوامل کی نشاندہی کرنی ہے جو مرض کے اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ای ای ڈی سے متاثرہ آنت کی زیر مطالعہ تصاویر ایس ای ای ایم کے کام سے موصول ہوتی ہیں۔ ایس ای ای ایم سیم 13 ملین امریکی ڈالر کی حامل ایک کثیر الملکی گرانٹ ہے جس کے لیے مالی معاونت بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن فراہم کرتی ہے۔ سیم کی سربراہی مشترکہ طور پر اے کے یو کے ریسرچ کے ایسوسی ایٹ ڈین ڈاکٹر اسد علی اور یونیورسٹی آف ورجینیا ڈاکٹر سین آر مور کر رہے ہیں۔

سیم سے حاصل ہونے والی تصاویر کے علاوہ ڈاکٹر ثنا سید یونیورسٹی آف ورجینیا کے پیتھالوجی آرکائیوز میں موجود تصاویر اور یونیورسٹی آف زیمبیا کے اسکول آف میڈیسن میں موجود اشتراک کاروں کی جانب سے موصول ہونے والی تصاویر کا بھی جائزہ لیں گی۔

ڈاکٹر ثنا سید نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، ” تصاویر کے جائزے کے لیے ڈیٹا سائنس کے جدید ترین طریقہ کار کے اطلاق سے ہمیں اس پیچیدہ، کثیر الجہتی بائیو میڈیکل اعدادوشمار کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور ہم ایسے نتائج اخذ کر سکیں گے جس سے مرض کی تشخیص کے طریقہ کار میں بہتری آئے گی۔”

انھوں نے مزید کہا، “کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں جدت اور تنوع کی وجہ سے ہمیں بہت بڑے ڈیٹا کے جائزے کے لیے غیر جانبدار، منظم طریقہ میسر آتا ہے اور اس کی مدد سے ہم ایک ملٹی اومکس طریقہ کار استعمال کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسا طریقہ کار ہوتا ہے جس میں ہم ای ای ڈی کے باعث ہونے والی تبدیلیوں کے مطالعے اور تحقیق کے لیے پروٹینز، کیمیائی مرکبات حتی کہ خوردبینی اجسام کے متعلق معلومات کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔ یہ اہم معلومات اس کے بعد غذائی اور معالجاتی تدابیر کو ٹیسٹ کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے اور یوں ای ای ڈی کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔”

ڈاکٹر ثنا اور ڈاکٹر علی کے مطابق مستقبل میں یہ نتائج ای ای ڈی کی تشخیص کے طریقہ کار میں تبدیلی کا باعث ہوں گے۔ اس وقت ای ای ڈی کی تشخیص کے لیے صرف بائیوپسی کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے۔ بائیوپسی کے لیے مریض کی آنت سے ٹشوز کا نمونہ حاصل کیا جاتا ہے۔

تحقیق کار اس مطالعے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے مشاہدات کی مدد سے اسکریننگ بائیومارکرز کا ایک جامع سیٹ تشکیل دینا چاہتے ہیں جنہیں ‘کیمیکل وارننگ سائنز’ کہا جائے گا۔ ان علامات کی مدد سے مستقبل میں ڈاکٹرز خون یا پیشاب کے سادے ٹیسٹ کی مدد سے ای ای ڈی کی تشخیص کر سکیں گے۔

ڈاکٹر اسد علی نے اس موقعے پر بات کرتے ہوئے کہا، “ای ای ڈی ترقی پذیر دنیا میں دائمی امراض کی اہم وجوہات ) غذائیت کی کمی، جسمانی نشوونما کی کمی اور حفاظتی ٹیکوں کے خلاف مدافعت( میں سے ایک ہے۔ ای ای ڈی پر توجہ دے کر ہم نہ صرف ایسے امراض کا زور توڑ سکیں گے جو غربت اور اس سے جڑے عوامل کے باعث ہوتے ہیں بلکہ خراب صحت عامہ کے ان عوامل کو سمجھ سکیں گے جو غربت کا باعث بن سکتے ہیں۔”

ایس ای ای ایم ایک کثیر الادارتی اشتراک ہے جس کا مقصد ای ای ڈی سے متعلق بہتر فہم ہے۔ اے کے یو، یونیورسٹی آف ورجینیا، سنسناٹی چلڈرنز ہسپتال، میساچیوسیٹس جنرل ہسپتال اور واشنگٹن یونیورسٹی اس منصوبے کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *