یوم اساتذہ: پاکستان میں 3 لاکھ سے زائد اساتذہ کی تعلیم صرف بی ایڈ

  • October 5, 2016 3:10 pm PST
taleemizavia single page

خصوصی رپورٹ

پاکستان کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں تدریسی فرائض سرانجام دینے والے اساتذہ کی کل تعداد 14 لاکھ ہے ان اساتذہ میں سے 6 لاکھ 50 ہزار اساتذہ سرکاری سکولوں میں تعینات ہیں۔

سکولوں میں اساتذہ کی تعداد مجموعی اساتذہ کا 51 فیصد ہے۔

الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق سرکاری سکولوں میں تعینات 51 فیصد اساتذہ کے پاس صرف بی ایڈ کی سند ہے۔ گویا یہ تعداد 3 لاکھ 12 ہزار بنتی ہے۔

سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے 62 فیصد اساتذہ کا تجربہ سولہ سال سے زائد ہے اس کے برعکس نجی سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کے پاس اوسطا تجربہ پانچ سال سے بھی کم ہے۔

اساتذہ کی کم تعلیم اپنی جگہ لیکن اساتذہ کی سالانہ کارکردگی پر اثر انداز ہونے والے دیگر عوامل کو بھی سرکاری سطح پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ان دیگر عوامل میں ملٹی گریڈ ٹیچنگ، اساتذہ اور طلباء کے درمیان تناسب کا فرق، غیر تدریسی کام کا دباؤ، ٹریننگ کورسز کا فقدان اور سکولوں میں سہولیات کی کمی شامل ہے۔

ان تمام عوامل کا براہ راست اثر طلباء کے سیکھنے کی صلاحیت پر مرتب ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری سکولوں میں صرف انہی وجوہات کی بناء پر بچوں کے سیکھنے کی شرح کم ہے۔

پاکستان کے سرکاری سکولوں میں ایسے سکولز بھی ہیں جہاں صرف ایک اُستاد تعینات ہے۔ یہ سکول مجموعی تعداد کا 29 فیصد ہیں۔

صوبائی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں 15 فیصد پرائمری سکولوں میں ایک اُستاد تعینات ہے۔ بلوچستان کے 54 فیصد، خیبر پختونخواہ کے 19 فیصد اور سندھ کے 47 فیصد پرائمری سکولوں میں صرف ایک اُستاد تعینات ہے۔

سرکاری پرائمری سکولوں میں کچی جماعت اور پہلی جماعت سے پانچوویں جماعت تک کی کلاسز ہوتی ہیں۔

الف اعلان کی اس رپورٹ کے مطابق پرائمری سکولوں میں عموما 37 بچوں کے لیے ایک اُستاد ہے۔

آزاد جموں کشمیر میں ایک اُستاد کے لیے 24 بچے، بلوچستان میں 29، فاٹا میں 41، گلگت بلتستان میں 28، پنجاب میں 39 طلباء کے لیے ایک اُستاد ہے۔ خیبر پختنونخواہ میں ایک اُستاد کے لیے 45 بچے، سندھ میں 30 جبکہ اسلام آباد میں 29 بچوں کے لیے ایک اُستاد ہے۔

سرکاری سکولوں میں پڑھانے والے اساتذہ کو ایک ہفتے میں 36 پیریڈز پڑھانے کے پاپند ہوتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ان اساتذہ کو خالی کلاسز میں بھی پیریڈز لینے پڑتے ہیں۔

حالانکہ وہ ان اضافی کلاسز کو پڑھانے کے قانونی طور پر پاپند نہیں ہوتے۔

حکومت دباؤ کے تحت اساتذہ سے غیر تدریسی ڈیوٹیاں بھی کراتی ہے۔ ان ڈیوٹیوں میں الیکشن، انتخابی فہرستوں کو مرتب کرنا، مردم شماری، ویکسین مہم وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

یوں ان غیر تدریسی سرگرمیوں پر ایک اُستاد کے سال میں 50 دن ان کاموں میں صرف ہوتے ہیں۔

اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ حکومت کی جانب سے سرکاری سکولوں کے 43 فیصد اساتذہ کو گزشتہ پانچ سالوں سے ٹریننگ کورسز نہیں کرائے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں کے 58 فیصد اساتذہ کو نیشنل کریکلم سے متعلق کوئی معلومات نہیں ہوتی۔

اسی طرح حکومت نے تاحال اساتذہ کی جوائننگ سے پہلے ٹریننگ کورس کا سسٹم نہیں بنایا۔ چنانچہ 73 فیصد اساتذہ کو تعینات کرنے سے پہلے ٹریننگ کورس نہیں کرایا جاتا۔

سرکاری سکولوں میں سہولیات کا فقدان اس سے بھی زیادہ سنجیدہ مسئلہ ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق حکومت کے تحت چلائے جانے والے49 فیصد سرکاری سکولوں میں بجلی کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔

اسی طرح 37 فیصد سرکاری سکولوں میں پینے کا پانی، 35 فیصد سکولوں میں واش رومز اور 33 فیصد سرکاری سکولوں میں چار دیواری تک نہیں ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *