میڈیا لیٹریسی: میڈیا کا کاروباری چکراورعوام

  • May 19, 2017 4:47 pm PST
taleemizavia single page

محمد اکرم سومرو

میڈیا کے محتاط استعمال کے شعور اور میڈیا ٹیکنالوجی کے بنیادی اُصول و ضوابط سے متعلق جاننا میڈیا لیٹریسی کے زمرے میں آتا ہے۔

لکھنے اور پڑھنے کے بنیادی اصولوں کو جاننے، استعمال کرنے کی صلاحیت سے واقفیت ہونا لیٹریسی کے زمرے میں آتا ہے۔

لیکن جدید دور میں لٹریسی کا وسعت اختیار کر گیا ہے۔ اب معلومات کا تبادلہ یا پھر پڑھنے کے لیے صرف کتاب ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی بھی شامل ہوگئی ہیں۔ معلومات عامہ کے اس دور میں میڈیا اسی ٹیکنالوجی کی بناء پر ابلاغ کا کام کر رہا ہے۔

معلومات کے ذرائع تبدیل ہونے کے باعث آج کے دور میں شہری اور دیہی زندگی میں ذرائع ابلاغ کا استعمال اور تجربہ ہر شخص کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے اور یہ ذرائع ابلاغ میڈیا کے بہت سے حصوں پر محیط ہیں۔

قومی اور عالمی سطح پر معاشرے اب انفارمیشن سوسائٹیز بن چکی ہیں لہذا ایسی صورت میں میڈیا کے استعمال سے دور رہنا ناممکن سے لگتا ہے۔

میڈیا ہمارے لیے طرح طرح کی معلومات، تجزیے، تفریح اور آراٰء کو پیش کرتا ہے اور افراد اس میڈیا کے کنزیومر بن جاتے ہیں۔

ایک طرف تو یہ سوچنے والے اذہان کے لیے وہ بنیادی معلومات فراہم کرتا ہے جس کی بنیاد پر وہ حالات کا تجزیہ کر کے درست حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

وہیں وہ افراد جو کہ اپنی ذاتی مصروفیات اورمطالعہ کی عادت نہیں رکھتے، اُن کے لیے اینٹرٹینمنٹ طرز کی خبریں بھی بہم پہنچاتا ہے۔ ان خبروں میں پہناوے کے دلکش انداز، فاسٹ فوڈز کے مراکز اور کمرشل ازم کی بنیاد پر بے شمار معلومات ان افراد تک پہنچا رہا ہوتا ہے جو ان کے متلاشی ہوتے ہیں۔

جس طرح زندگی کے باقی معاملات میں احتیاط اور تجربہ ہیمیشہ کامیابی کا باعث بنتا ہے بعینہ میڈیا کے استعمال میں احتیاط بہت ساری سماجی، ثقافتی، تعلیمی، انفرادی، اجتماعی اور معلوماتی الجھنوں سے بچاو کے لیے ضروری ہے۔

میڈیا کے محتاط استعمال کے شعور کا نام ہی دراصل میڈیا لیٹریسی ہے۔ جس طرح کسی بھی ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کے لیے اس کے بارے میں بنیادی معلومات کا علم ناگزیر ہوتا ہے بالکل ویسے ہی میڈیا کے استعمال کے وقت بعض پہلوؤں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔

میڈیا بطور ایک منافع ساز صنعت

پاکستان میں میڈیا کے نشریاتی یا پھراشاعتی ادارے کوئی مشنری ادارے نہیں ہیں۔ پاکستان کے میڈیا کے پیش نظر کمرشل مفادات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں، ان کے نظریات انہیں مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔

میڈیا کے ادارے سماجی تبدیلی اور انقلاب کے لیے قائم نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ ان کا ہدف ہوتاہے۔ میڈیا کے مالکان اور سرمایہ کاروں کا اس صنعت میں سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد تو اپنے سرمایہ پر زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہوتا ہے۔

لہذا ہر اُس پروگرام کی تشہیر زیادہ کی جاتی ہے جو عام آدمی یا پھر خاص طبقہ کو اپنی طرف مائل کر سکے۔

پاکستان کے بعض میڈیا چینلز پر حالات حاضرہ پر پروگرام کرنے والے اینکرز چرب زبانی میں خوب مہارت رکھتے ہیں اور ان کی گفتگو نے نظریات یا پھر اُصولی درجے کی باتیں خارج ہوتی ہیں۔

بلکہ بعض اینکرز تو اپنا پورا پروگرام ایک مداری کی طرح آخر میں سانپ دکھانے کا جھانسہ دے کر وقت گزار دیتے ہیں بلکہ پروگرام کے اختتام پر روایتی جملہ روز دہراتے ہیں کہ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے۔

اس پروگرام کے دوارن نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہارات چینل کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں ایک گھنٹے کی نشریات میں تیس منٹ کے اشتہارات دکھانا بھی پروگرام کا لازمی جزو قرار پاتا ہے۔

خبریں پہنچانے والے ٹیلی ویژن کے پیش نظر ٹی پی آر ہوتی ہے یعنی ریٹنگ۔ کیونکہ چینلز کو ملنے والے اشتہارات کی قیمت اس ریٹنگ کی بنیاد پر طے ہوتی ہے اس لیے جس پروگرام کے دوران ریٹنگ زیادہ اچھی ہوگی وہیں اشتہارات کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔

رمضان المبارک، محرم الحرام، ربیع الاول، یوم آزادی، چھ ستمبر، تیئس مارچ حتیٰ کہ یکم مئی کا دن ہی کیوں نہ ہو کمپنیاں اسی نوعیت کے اشتہارات بناتی ہیں اور پھر ان اشتہارات کو چینلز نشر کرتے ہیں۔

نیوز چینلز جب ریٹنگ کی تلاش میں ہوتے ہیں اس کا مقصد چینل کو قابل اعتبار بنانا یا پھر مباحثوں سے نتائج پیدا کرنا نہیں ہوتا بلکہ کمپنیوں کو یقین دلانے کی کوشش ہوتی ہے کہ چینل کے خاص پروگرام کی ریٹنگ ہائی ہے لہذا اس دوران جو اشتہارات نشر ہوں گےوہ مصنوعات کی مارکیٹ کو وسیع کرسکتے ہیں۔

نیوز چینل پر پروگرام دیکھنے والے شہریوں کو میڈیا کے اس کاروباری چکر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

میڈیا کے اینکرز کاروبار کرنے والی صنعتوں کے لیے سیلز مین کا کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ اُسی آئیڈیا کو مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے جو منافع بخش بھی ہو۔ اور سماج میں معاشی تفاوت یعنی فرق کو قائم رکھنے میں مدد گار بھی ثابت ہو۔

میڈیا پر سیاسی و نظریاتی اثرات

میڈیا کنزیومر یعنی میڈیا دیکھنے والوں میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ چینل پر نشر ہونے والا پروگرام یا پھر اخبار میں شائع ہونے والی خبر سیاسی اثرات سے آزاد ہوتی ہے اور اس میں صرف غیر جانبداری پائی جاتی ہے جب کہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔

درحقیقت عوام کی نظروں سے اوجھل ہوکر، پاکستان کے میڈیا کے اداروں پر حکومتی جماعتیں، حزب اختلاف، سرمایہ دار، صنعتوں کے مالکان، غیر سیاسی تنظیمیں پریشر گروپس کی صورت میں بسا اوقات ان پر اثرا انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ سیاسی و غیر سیاسی اثر و رسوخ تمام معاشروں میں پایا جاتا ہے، چاہے وہ سرمایہ دارانہ معشیت کے حامل ہوں یا اشتراکی نظریات کا پرچار کرنے والے۔

میڈیا ایجنڈا سیٹنگ کا کردار نبھاتا ہے۔ کسی بھی ایشو پر میڈیا میں مجموعی پوزیشن کسی دباؤ کے باعث اختیار کی جاتی ہے۔ اس کی وضاحت بے شمار مثالوں کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔

حکومتیں اپنے خلاف پراپیگنڈے کو کنٹرول یا پھر محدود کرنے کی خاطر اشتہارات کی صورت میں چینلز، اخبارات، ریڈیو کر رشوت فراہم کرتےہیں۔ ان اشتہارات کی قیمتیں سرکاری خزانے سے ادا کی جاتی ہیں اور خزانے کی رقم عوامی ٹیکسوں سے جمع ہوتی ہے۔

دو ہزار آٹھ کے اوائل میں جنرل ریٹائرڈ مشرف کے خلاف میڈیا میں محاذ آرائی، پاکستان پیپلز پارٹی کے کے خلاف دو ہزار بارہ کے بعد محاذ آرائی کے پس پشت میڈیا کے مفادات کچھ اور تھے۔ اور ان مفادات کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری اشتہارات اور مراعات کی صورت میں کی گئی تھی۔

مشرف دور میں لبرل ازم کے تصورات کا مقابلہ میڈیا کے ذریعے مذہبی رجعت پسند تنظیموں کے ذریعے سے ہوا۔ اس لبرل ازم کا مقابلہ کرنے کے لیے موجودہ حکمران جماعت کے نامور سیاستدانوں نے بیانات بھی دیے اور پھر ایجنڈا سیٹنگ کے لیے اشتہارات بھی جاری ہوئے۔

مذہبی جماعتوں کے اجتماعات کی کوریج اور پھربرقی میڈیا نے اس کوریج کے پیسے بھی متعین کیے۔ میڈیا رائے عامہ ہموار کرنے کے جتنے بھی ایجنڈوں پر کام کرتا ہے اس کے پیچھے صرف مالی مفادات متحرک ہوتے ہیں۔

میڈیا کے مواد پر اثر انداز ہونے کا دوسرا طریقہ بذریعہ میڈیا پروفیشنلز ہوتا ہے۔ مختلف مذہبی و سیاسی جماعتیں، این جی اوز، دوسرے ملکوں کے سفارت خانے اور کمپنیوں کے پبلک ریلیشنز آفیسرز مستقل بنیادوں پراثر انداز ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اخبارات اور الیکڑانک میڈیا پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف نہ تو خبر دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی ان کمپنیوں پر پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ کیونکہ کمپنیوں کی جانب سے میڈیا مالکان اور بڑے بڑے صحافیوں و اینکرز کے ساتھ تعلقات کو مضبوط رکھنے کے لیے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

یہ سرمایہ کاری اشتہارات، بیرون ممالک دوروں، جہازوں کی ٹکٹوں سے لے کر دیگر سہولیات پہنچانے پر بھی کی جاتی ہے۔

اس سارے عمل کے نتیجے میں میڈیا سماج میں سرمایہ داریت کے تحفظ اور رجعت پسند سوچ کو پروان چڑھانے بلکہ تبدیلی کے نظریات کی بھی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان میں میڈیا سیاسی و معاشی سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کا بہترین ٹول ہے۔

پاکستان کا میڈیا کمال ہنر کی بنیاد پر رائے عامہ پیدا کر رہا ہے۔ اخبارات کی خبروں اور چینلز کی ہیڈ لائنز کا شعوری بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خبروں کی بہت بڑی تعداد حکمران جماعت، اتحادیوں، حزب اختلاف کی جماعتوں کے لیڈرز اور سیاستدانوں کے بیانات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

ان چٹ پٹے لفاظی والے بیانات کو میڈیا مزید مصالحہ لگا کر چسکے دار بناتا ہے اور پھر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ان خبروں اور بیانات میں عام آدمی کی زندگی، اس کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

میڈیا کی خبروں میں عام آدمی کے مسائل کو جگہ ہی نہیں ملتی بلکہ میڈیا خود سے خبر بناتا ہے اور اس خبر کی بنیاد پر گھنٹوں کی نشریات جاری کرتا ہے۔ اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ میڈیا پروفیشنلز کو اس پر کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی۔

میڈیا اور اس کی معاشی پالیسی

پاکستان میں میڈیا اب مستقل انڈسٹری کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ میڈیا کی صنعت بھی باقی صنعتوں کی طرح منافع کی بنیاد پر کام کر رہی ہے اور اس کے پیداواری نظریات معاشی مفادات کے تابع ہوگئے ہیں۔

لہذا میڈیا کے کسی بھی ادارے کا مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ، ادارتی بورڈ اور خاص کر مالکان اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ کوئی ایسا مواد شائع یا نشر نہیں ہونا چاہیے جو میڈیا مالکان کے لیے معاشی نقصان پہنچا سکے یا پھر معاشی چیلنجز کا شکار کر دے۔

پاکستان کا میڈیا عالمی میڈیا کے ایجنڈے کو ہی نافذ کر رہا ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خلاف خبر دینا جرم سمجھنے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام عالمی سرمایہ داریت کا محافظ ہے۔

میڈیا پر چلنے اور چھپنے والی خبروں کو عمومی طور پر دیکھا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ عوامی مسائل کی نشاندہی میڈیا کی پالیسی کا حصہ ہے لیکن ان کمپنیوں کا نام آتے ہی یہ میڈیا اندھا، گونگا اور بہرہ ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے میڈیا کے اداروں نے فاسٹ فوڈز کمپنیوں، ٹھنڈے مشروبات تیار کرنے والی کمپنیوں، فیشن سے منسلک بڑی کمپنیاں یا پھر الیکڑانک مصنوعات کی انسانی صحت پر کیا منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اس پر مباحثہ کرنا میڈیا کی پالیسی سے خارج ہے۔

کمپنیوں کی لوٹ کھسوٹ، اجارہ داری اور منافع کو بڑھانے کے ہتھکنڈوں پر ایک شہری تحقیق کر کے کتاب تو شائع کر سکتا ہے لیکن میڈیا میں اس پر بحث کرنا کفرہے۔

میڈیا مواد کے سیاسی،معاشی و ثقافتی مقاصد

اُصولی درجے میں تو میڈیا کا کام قومی و مقامی ضروریات کا تحفظ کرنا ہے اور ان ضروریات کے پیش نظر مطلوبہ حکمت عملی پر گفتگو کرنا ہے۔ تاہم پاکستان کا میڈیا سماج میں پہلے سے موجود سیاسی و معاشی نظریات کا تحفظ کر رہا ہے۔

صرف یہی نہیں قومی و علاقائی ثقافتی شناخت پر بھی میڈیا اثرپیدا کر رہا ہے جو کہ عالمی سطح پر ہماری پہچان کے لیے نقصان کا موجب ہے۔

میڈیا لیٹریٹ فرد میڈیا پر نشر اور شائع ہونے والے مواد پرغور کرتا ہے تو واضع ہوجاتا ہے کہ ملکی اور عالمی میڈیا سیاست کے میدان میں رائج طریقہ کا ر اور مروجہ سرمایہ دار پارٹیوں کے علاوہ ہر آپشن کو غیر فطری اور نا قابل قبول قرار دیتا ہے۔

میڈیا معیشت کے میدان میں سرمایہ داری کو ہی ترقی کرنے کا اصل راز بتائے گا اور سرمایہ داریت کی بناء پر مغربی معاشرے کی ترقی کو بطور مثال کے پیش کرے گا۔

پاکستانی میڈیا عوام کے سامنے معاشرتی اور ثقافت کے اعتبار سے طرز زندگی اپنانے کی خاطر مغرب کو بطور کامیابی کا پیمانہ پیش کرتا ہے۔

کارپوریٹ اشتہارات کے ذریعے پُرتعیش زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا صارف بنانے کے ایجنڈے کو غیر مرئی طور پر فروغ دیتا ہے۔

اس لیے ہمیں میڈیا پر مقامی کلچر، مذہبی اقدار کو چیلنج کرنے کی مثالیں ملتی ہیں حتیٰ کہ اس خطے کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے پر مبنی اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ جس میں بڑے نجی چینل پر تین سال پہلے تعلیم پر چلنے والی اشتہاری مہم میں کیا گیا جسے ناقدین نے مسترد کیا تھا۔

میڈیا کے بارے میں ہونے والی تحقیق سے آگہی

میڈیا اس دور میں انسانی معاشروں میں نا صرف معلومات اور خبریں فراہم کر کے رائے بنانے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسانی رویوں کی تشکیل اور ان کے اچھے برے ہونے کے تصورات بھی ذہنوں میں منتقل و مضبوط کرتا ہے۔

آج کے اس انفارمیشین سوسایٹی کے دور میں میڈیا کا استعمال جہاں ناگزیر ہو گیا ہے وہیں اس اَمر کی ضرورت بھی اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ میڈیا کی فیلڈ میں ہونے والی تحقیق سے آگہی حاصل کی جائے۔

مثال کے طور پر اگر بچے کارٹون دیکھیں تو کیا واقعتاً ان کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے یا یہ تصور غلط ہے۔ اِسی طرح سے یہ تصور کہ میڈیا اپنی خبر و رائے میں غیر جانبدار اور حقیقت پسند ہوتاہے یا حقیقت حال یہ ہے کہ میڈیا خود نا نظر آنے والی قوتوں کے زیر اثر رہ کر کام کر رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح یہ تصور کہ میڈیا اتنا طاقتور ہے کہ کوئی بھی انسان آج کے دور میں اس کے اثرات سے نہیں بچ سکتا ہے۔ان سوالات کے جواب جاننے کے دو طریقہ ہوسکتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ اس شعبے سے متعلقہ تحقیق کو شعوری انداز فکر کے ساتھ پڑھا جائے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ باشعور اجتماعیت کا حصہ بن کر اس پر سیر حاصل گفتگو کر کے میڈیا کی حقیقت کو جانا جائے۔

آج کا دور “دجل” (Deception) کا دور ہے۔ اس وقت کسی بھی باشعور اجتماعیت کے لیے یہ اَمر اِنتہائی توجہ طلب ہے کہ وہ اس مفید ٹیکنالوجی کے انکار کی بجائے اس کو صیح استعمال کرنے کے گُر سیکھے۔

جس کا سب سے آسان طریقہ ایک با شعور اجتماعیت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر جڑنا ہے۔ کیوں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ میڈیا کے تمام غیر سیاسی، غیر سماجی اور بے شعوری کے پروپیگیڈے سے بچنے کا واحد طریقہ ایک صحتمند اجتماعیت کے ساتھ مستقل بنیادوں پر سماجی رابطے میں پنہاں ہے۔

میڈیا کے کاروباری مفادات کو جاننا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ چُھری پھل پر چلانے کی بجائے ہاتھ پر چلا دی جائے۔


akram-soomro-2

محمد اکرم سومرو میڈیا اسٹڈیز کے اُستاد ہیں وہ آج کل لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز میں تعینات ہیں۔ اس سے پہلے وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ایف سی کالج لاہور میں پڑھا چکے ہیں۔ میڈیا پر شعوری تنقید کے ذریعے طلباء کو پڑھانا ان کا شوق ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *