علم و ادب کا مرکز: لاہور کے پانچ اور پاکستان کا ایک نوبل لاریٹ
- September 8, 2016 10:46 pm PST
ظافرہ خالد، لاہور
لاہور کے ماضی کے میلے ٹھیلے، عالیشان تاریخی عمارتیں، ثقافتی مراکز اور قدیم ورثہ یہاں کی پہچان ہے۔
لاہور کے جغرافیہ، ثقافت، رسوم ورواج حتیٰ کہ یہاں کے لوگوں کے مزاج پر معروف مزاح نگار پطرس بخاری نے قلم آزمائی کر رکھی ہے۔
لاہور صرف کلچرل مرکز تک محدود نہیں بلکہ اس کا شاندار علمی ماضی اسے پاکستان اور برعظیم میں ممتاز کرتا ہے۔
دو ہزار سال تک پھیلی اس شہر کی تاریخ کو دیکھنے کے لیے سیاح، ادیب، مورخ، ماہر عمرانیات یہاں وقتا فوقتا پہنچتے ہیں۔
لاہور تو اس خطے کی پہچان تھا لیکن اب پاکستان کی پہچان بھی یہی لاہور ہے۔ سیاست میں جوڑ توڑ اور تحریکوں کی ابتداء اسی شہر سے ہوتی رہی ہے۔
لیکن کتنے پاکستانی شاید یہ جانتے ہوں کہ ملک کے پاس تو صرف ایک نوبل لاریٹ ہے لیکن لاہور کے پاس پانچ نوبل لاریٹ ہیں۔
یہ نوبل لاریٹس اس بات کی نشاندہی ہیں کہ لاہور علم و ادب کا گہوارا ہے۔
ریڈ یارڈ کپلنگ کو کتنے لاہوریے جانتے ہیں؟ کپلنگ انگریزی ادب کا وہ اولین مصنف ہے جس نے اپنی اعلی ادبی صلاحیتوں کی بنا پر نوبل پرائز حاصل کیا۔ ستر بہاروں میں سے لاہور میں دیکھی ہوئی پانچ بہاریں اُن کی نفسیاتی زندگی کا عین حصہ ہیں۔
کپلنگ کے تصورات میں مغرب اور مشرق کا بہترین امتزاج اُبھر کر آیا۔ 1907ء میں ناول Kim (اَلتحریرِ اُو) نوبل پرائز کا باعث بنا۔
یہ وہ دور تھا جب تخت لاہور انگریزوں کے قبضے میں تھا ۔ شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور دریائے راوی پر انگریزی فوجوں کا کنٹرول تھا۔ یہ شہر اُس وقت بھی علمی تخلیق کا مرکز بنا۔
کیپلنگ نے اپنے اس ناول میں لاہور کے باسیوں، یہاں کے مذاہب، معا شروں اور تاریخی عمارتوں کی دلکش تصویر کشی کی ہے۔
لوگوں کی روایات، اخلاقیات اور ان کے شیون قابلِ زکر انداز میں بیان کیے ہیں۔ مال روڈ پر لاہور میوزیم کے عین سامنے نصب توپ کیپلنگ کی اسی کاوش کی مناسبت سے کم توپ کہلاتی ہے۔
ریڈیارڈ کپلنگ کو جب نوبل انعام ملا تو وہ اسی شہر میں ہی قیام پذیر تھا اور یہاں کا کلچر طرز زندگی اُس کے لیے بہت کشش کا باعث بنا۔ اپنے ناول میں منفرد اسلوب اور پھر عالمی سطح پر ادبی پہچان ملنا، یہ سب کپلنگ کو لاہور کی وجہ سے ملا۔
صرف ادب ہی نہیں بلکہ سائنس کے مضمون میں بھی لاہور نے نوبل لاریٹ پیدا کیے۔ ارتھر ہولی کمپٹن (1962-1892ء) امریکی نژاد ماہر طبیعات تھا۔
ارتھر ہولی نے کمپٹن ایفکٹ کا موجد بن کر 1927ء میں نوبل انعام حاصل کیا۔
کمپٹن ایفکٹ کیا ہے؟ دراصل ارتھر ہولی کمپٹن نے اپنی علمی تحقیق کی بناء پر یہ دریافت کیا کہ برقی شعاؤں کی مقناطیسیت کی اصل حقیقت، موضوع نظریہ و تجربہ تھی۔
اسی دریافت نے علم کیمیاء کی نئی شاخ متعارف ہوئی۔
لاہور کی پنجاب یونیورسٹی نے جب ارتھر ہولی کمپٹن کو جب پلیٹ فارم مہیا کیا تو پھر اسی کمپٹن نے سائنس کی دُنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔
1927ء کے تمام سائنسی تجربات کمپٹن نے پنجاب یونیورسٹی کی سائنسی لیبارٹری میں ہی بیٹھ کر کیے۔
لیبارٹری کی سہولت اور اس میں مکمل معاونت یونیورسٹی کے اُستاد ڈاکٹر ایس ایس بھٹ ناگار نے کی جس پر کمپٹن ہمیشہ ان کا مشکور رہا۔
روشنی کی حقیقت تو پہلے سے آشکار تھی لیکن اس کے طلسماتی کرشموں پرسے پردہ کمپٹن نے اُٹھایا۔
مجددِ طبیعات کو ذرا سی رہنمائی کا ملنا تھا کہ دماغ طبیعات کی گتھیاں سُلجھانے کا آلہ کار بن گیا اور نتیجتا بڑا کام کر دکھایا۔
اپنے علمی کام کے دوران کمپٹن لاہور میں ہی قیام پذیر رہا اور پنجاب یونیورسٹی نے کمپٹن کو علمی سرپرستی فراہم کی۔ یہ لاہور کی ذرخیز مٹی کا جادو تھا کہ کمپٹن نے جو کارنامہ سرانجام دیا وہ اس بناء پر نوبل انعام کا مستحق قرار پایا۔
ہرکوبند کھرانہ کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے کتنے طالبعلم جانتے ہیں؟ لاہور میں کیمیاء کی تعلیم حاصل کرنے والے ہوں یا پھر کیمیاء دان ہرکوبند کھرانہ تو ان کے لیے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔
ہرکوبند کھرانہ لاہور کے مضافاتی دیہات راجپور میں پلے بڑھے اور پھر ملتان میں کھرانہ کو رتن لال جیسے اُستاد میسر آئے جنہوں نے کھرانہ کی صلاحیتوں کو نکھارا۔
پھر 1941ء سے لیکر 1947ء تک وہ بی ایس سی اور ایم ایس سی کرنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچے۔ یہاں پر اُن کی خوش قسمتی تھی کہ اُنہیں مایہ ناز اسُتاد ماہان سنگھ کی سرپرستی و رہنمائی حاصل ہوئی۔
ماہان سنگھ کی حقیقت پسندی اور تجرباتی رویوں نے کُھرانہ کی خُوب رہنمائی کی۔
ہرکوبند کھرانہ نے علم کیمیاء میں پروٹین اور نیوکلیک ایسڈ پر تحقیقاتی کام کیا۔ اس تحقیق میں اُنہوں نے نیوکلیک ایسڈ کے ملاپ اور آر این اے کے پروٹین کی ماہیت کو مستقل رکھنے کے عمل کو واضع کیا۔
علم کیمیاء میں ان کا یہ کام آج بھی ٹھوس حقیقت ہے۔ اُن کے اس سائنسی کام کی بناء پر اُنہیں 1967ء میں نوبل انعام ملا۔ ہرکوبند کھرانہ اگرچے تقسیم ہند کے بعد لاہور سے چلے گئے لیکن وہ اپنی شہرت کو حاصل کرنے میں ہمیشہ لاہور کے احسان مند رہیں ہیں۔
وہ تو لاہور میں ہی رہتے تھے لیکن تاریخ کا دھارا بدلا تو مذہبی انتہا پسندی کی بناء پر اُنہیں اپنے اس شہر کو خیر باد کہنا پڑا۔
لاہور کا مغل پورہ شاید مغل بادشاہوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ کیا مغل پورہ کے باسیوں کو معلوم ہے کہ یہاں کی گلیوں میں ایسے ذہین بچے کی پرورش ہوئی جو آگے چل کر دُنیا کا سب سے بڑا علمی انعام ملا۔
آج کے جدید دور میں بلیک ہول پر سائنسدانوں کی تحقیق جاری ہے۔ لیکن لاہور کے سُبرہامنیان چندرا سیکھر المعروف چندرا ہی وہ شخص تھا جس نے 1947ء میں طواف فلک میں موجود کروڑوں ستاروں کے درمیان بلیک ہولز کی نشاندہی کی۔
ستاروں کی وجودیت، ماہیئت کےعمل اورترتیب ِ مدارج پر خاص نظریہ پیش کرنے پر 1983 میں نوبل پرائز سے نوازے گئے۔ ان کی طبیعاتی تحقیق سے آنے والی دُنیا تک ماہر طبیعات مستفید ہوتے رہیں گے۔
چندرا خلائی فلکیاتی دُور بین انہی کے نام سے منسوب ہے اور لاہور کے اس باسی کی علمی سربلندی کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے۔
فزکس تو سائنس کی بنیاد ہے۔ کیمسٹری اور علم فلکیات میں فزکس کی اہمیت کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟
سائنس کے شعبے میں نوبل انعام حاصل کرنا، لاہور کو اس پر فخر رہے گا۔
جھنگ کے شہر میں قادیانی مذہب کے پیروکار کے گھر پیدا ہونے والے عبد السلام کو کیا معلوم تھا کہ جس گھر میں روشنی کو تیل نہیں اُس گھر کا بچہ ہمیشہ کے لیے روشنی بن جائے گا۔
یہ گل 1926ء میں اسی بے نم خاک سے کھلا۔ والدین اور خاندان میں علمی شغف کے باعث عبد السلام اپنے گھر والوں کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئے۔ لاہور منتقل ہونے کا فیصلہ مستقبل میں درست ثابت ہوا۔
گورنمنٹ کالج (یونیورسٹی) لاہور میں داخل ہوئے تو ان کی صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں۔ یہاں کا تعلیمی ماحول اور عبد السلام کی علمی جستجو کا جب ملاپ ہوا تو وہ سائنس پڑھنے والوں کے لیے درخشاں ستارہ بن گئے۔
1946ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تو ساتھ ہی وظیفہ بھی لگ گیا اور لاہور کی اس مادر علمی کے عظیم طالب علم ٹھہرے۔
عبد السلام اس کے بعد کیمبرج روانہ ہوئے اور 1949ء تک وہ طبیعات اور ریاضی کے مضامین میں مہارتیں پیدا کرنے لگے۔ اُن کی صلاحیت کی بناء پر اُنہیں 1950ء میں سمتھ پرائز ملا اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لیکر 1951ء میں وطن واپس لوٹے۔
اپنی مادر علمی گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہوئے۔
لاہور کے اس نیوٹن نے 1979ء میں ڈھلوان، مقناطیسیت، حرارت اور قوت ایک جیسی چیزیں ہیں، جو ایک دو سرے میں مدغم ہوسکتی ہیں، کا نظریہ متعارف کرایا اور پھر اس نظریے کو عملی تجربہ گاہ میں ثابت کر کے دکھایا۔
عبد السلام کو اس نئی تھیوری کے دریافت کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا اور اُنہیں 1979ء میں نوبل انعام دیا گیا۔ ان کے نام پر اٹلی میں ریسرچ سنٹر بنایا گیا جہاں آج بھی علم و تحقیق کا کام جاری ہے۔