کراچی یونیورسٹی دیوالیہ ہونے کا خطرہ: سالانہ خسارہ 80 کروڑ روپے ہوگیا

  • September 1, 2016 12:39 am PST
taleemizavia single page

خصوصی رپورٹ: اکمل سومرو

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ یونیورسٹی ایکٹ 2013ء میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لیا جائے۔

ان تبدیلیوں کی وجہ سے یونیورسٹیوں کی خود مختاری ختم ہوگئی ہے اور سیاسی مداخلت بڑھ گئی ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ تنخواہوں کی ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث حکومت سندھ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ کے احتجاج کے باعث تدریسی امور متاثر ہوئے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدرڈاکٹر شکیل فارونی نے تعلیمی زاویہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ سندھ حکومت نے پنجاب کی نقل میں ہائر ایجوکیشن کمیشن بنایا تاہم اس کمیشن سے نتائج برآمد ہونے کی بجائے اُلٹا نقصان ہوا ہے۔

سندھ یونیورسٹیز ایکٹ 2013ء میں تبدیلی کے مضر اثرات اب نمایاں ہورہے ہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ اپنے قیام سے ہی سیاسی مفادات اور جوڑ توڑ کا مرکز رہا ہے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی کہتے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی عدم توجہ کے باعث سندھ کی جامعات خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔

اُنہوں نے احتجاج کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے گزشتہ سال جامعات کی گرانٹ کا اعلان کیا تاہم آج تک یہ گرانٹ جاری نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے تعلیمی زاویہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت یونیورسٹیوں میں براہ راست بھرتیاں کرا رہی ہے جو جامعات کی خود مختاری پر حملہ ہے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے شکوہ کیا کہ ایچ ای سی پاکستان سندھ کی یونیورسٹیوں کو سہ ماہی بنیاد پر مالی گرانٹ فراہم کرنے کی بجائے ماہانہ بنیاد پر گرانٹ جاری کر رہی ہے جس سے یونیورسٹیوں میں غیر یقینی کی صورتحال ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ہوں یا ترقی یافتہ ممالک اعلیٰ تعلیم حکومتی گرانٹ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے احتجاج کی وجہ بتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ حکومت سندھ تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کر دیتی ہے لیکن تنخواہیں بروقت نہیں ملتی۔

کراچی یونیورسٹی کو صرف تنخواہوں کی مد میں سالانہ آٹھ سو ملین روپے کا خسارہ ہے، اںہوں نے کہا کہ حکومت جامعہ کے ملازمین اور اساتذہ کو بارہ مہینوں کی بجائے آٹھ مہینے کی تنخواہ دیتی ہے۔

شکیل فاروقی کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کے باعث اساتذہ اور ملازمین میں غیر یقینی کی کیفیت ہے۔

کراچی یونیورسٹی اور سندھ کی دیگر یونیورسٹیاں تین سال سال حکومت سے احتجاج کر رہی ہیں کہ یونیورسٹیز ایکٹ میں تبدیلی کو واپس کیا جائے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہے۔

ڈاکٹر شکیل فاروقی نے بتایا کہ اس ایکٹ میں تبدیلی کے بعد ڈائریکٹر فنانس کی تقرری کا اختیار چانسلر یعنی گورنر سندھ کے پاس ہے۔ جبکہ اس عہدے پر تقریری سنڈیکیٹ کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے عہدیدار کہتے ہیں کہ سندھ حکومت نے اپنی پسند کا ڈائریکٹر فنانس لگایا ہے جو فنڈز کو جاری کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اب تو یونیورسٹی اپنی آمدن کی رقم بھی حکومتی گرانٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی پاپند ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے مالی بحران کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جس ایک مثال لیو انکیشمنٹ کی ادائیگی کا نہ ہونا ہے۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے احتجاج ختم کرنے کے لیے مطالبات پیش کر دیے ہیں۔ یہ مطالبات درج ذیل ہیں۔

سندھ یونیورسٹیز لاء 2013ء کی ترامیم واپس لی جائیں۔

سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تجربہ کار اساتذہ شامل کیے جائیں۔

حکومت سندھ اپنے اعلانات کے عین مطابق جامعات کو فی الفور گرانٹ ادا کرے۔

جامعات میں حکومت براہ راست تقرریوں سے گریز کرے اور جامعات کے سلیکشن بورڈز کے ذریعہ باقاعدہ تقرریاں کی جائیں۔

جامعات میں انتظامی عہدوں پر تعینات ریٹائرڈ افسران کو فارغ کیا جائے۔
جامعات میں وائس چانسلرز کی تقریری ضوابط کے مطابق ہوں اور عارضی تقرریاں ختم کی جائیں۔

جامعات میں مالی کرپشن اور سیاسی بھرتیاں روک کر فوری طور پر تحقیقات کرائی جائیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کراچی یونیورسٹی کی گرانٹ میں اضافہ کرے اور حکومت ملازمین کو سال کی پوری تنخواہیں ادا کرے۔

حکومت سندھ، کراچی یونیورسٹی کے واجب الادا 350ملین روپے فوری ادا کرے اور جامعہ کی گرانٹ ایک ارب روپے سالانہ مقرر کی جائے ۔

کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی لیو انکیشمنٹ عید الاضحیٰ سے قبل ادا کی جائے۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے ذمہ داران نے یہ بھی کہا ہے کہ گرتی چھتوں اور بنیادی سہولیات سے محروم کلاس رومز، تجربہ گاہیں اور لائبریریوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے اعلان کیا ہے کہ پانچ ستمبر کو سندھ یونیورسٹیز آفیسرز فیڈریشن کا اجلاس این ای ڈی یونیورسٹی میں ہوگا جہاں بڑے انقلاب کے سفر کا آغاز کیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *