پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ نوآبادیات کا تسلسل
- September 4, 2016 3:07 pm PST
محمداکرم سومرو
اسسٹنٹ پروفیسر، انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز، پنجاب یونیورسٹی
تاریخ اسلام سے شناسائی رکھنے والوں اور یونیورسٹی کے طالبعلم کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ برعظیم میں دین اسلام کی تجدید کے سرخیل اول مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر ہم جماعت تھے۔
برعظیم میں اسلام کی سیاسی تاریخ کو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز حکمرانوں نے مسخ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ جس کا بنیادی مقصد یہاں کے نوجوان طبقے کو اپنے شاندار ماضی سے کاٹنا تھا۔ اس سارے عمل کے لیے انگریزوں نے جدید تعلیمی اداروں اور لکھاریوں کا سہارا لیا۔
برعظیم کے نوجوانوں کو تاریخ سے لا تعلق رکھنے کا سلسلہ آزادی تک جاری رہا بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی تاریخ کو مسخ کرنے کی حکمت عملی برقرار ہے۔ برعظیم عالمی دُنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا اس کی بنیادی وجہ یہاں پر موجود معاشی وسائل اور ترقی تھی۔ یہاں کی معاشی ترقی دراصل ہندوستان کے مقامی نظام تعلیم کے باعث تھی، جس سے یہاں امن تھا اور مذہب سے بالاتر ہوکر سماجی و معاشی مساوات تھی۔
ماہرین تعلیم کا اتفاق ہے کہ کامیاب طلباء حقیقت میں بہترین نظام تعلیم کی پیداوار کا عکاس ہوتا ہے۔ یہ نظام جس قدر بہتر ہوگا نتائج بھی اُسی درجہ کے پیدا ہوں گے۔ تعلیمی نظام ماضی میں بھی اور اب بھی حکمرانوں کی سوچ، نظریہ کا ترجمان ہوتا ہے۔ حکمران نظام تعلیم کے ذریعے سے سماج کے سامنے خاص نظریہ پیش کرتے ہیں اور یہ نظریہ آئندہ دور کی معاشی، سیاسی و سماجی ضروریات کے تابع ہوتا ہے۔
برعظیم پاک و ہند اپنی ثقافتی نیرنگی کی وجہ سے منفرد تاریخ کا حامل ہے۔ یہاں کے مسلمان بادشاہوں نے نظام سلطنت سنبھالا تو اس خطے کو سیاسی مرکزیت کے تصور سے روشناس کرایا۔ اس تصور کی بنیاد پر یہاں کے عام آدمی کے لیے معاشی مساوات کی داغ بیل ڈالی۔
مسلمان حکمران نظام مملکت چلانے میں تعلیم کو معاشرے میں سدھار لانے کا ذریعہ بنا چکے تھے۔
یہاں پر صرف رسمی تعلیمی ادارے ہی نہیں تھے بلکہ غیر رسمی تعلیمی سسٹم بھی رائج تھا جس کی نگرانی یہاں کے بڑے بڑے بزرگان دین اور اولیاء اللہ کر رہے تھے۔
مقریزی نے کتاب الخلط میں اس خطے کی تعلیمی حالت پر بہت تفصیل سے لکھا ہے، ان کے مطابق بزمانہ محمد تغلق صرف دہلی میں ہی ایک ہزار درسگاہیں تھیں۔ معروف جرمن سکالر میکس مولر ہندوستان کے علوم کی انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی غرض سے یہاں آیا تو اپنے مشاہدے کے بعد یہ لکھا کہ ہندوستان پر انگریزی عمل داری سے قبل بنگال میں اسی ہزار درسگاہیں تھیں۔ جو اُس وقت کی آبادی کے مطابق ہر چار سو لوگوں کے لیے ایک درسگاہ تھی۔
اس قدر بڑے خطے میں مسلمان حکمران تعلیم کا وسیع ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہر مسلمان حاکم نے اپنے دور میں تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات اُٹھائے۔
الیگزینڈر ہملٹن کے مطابق اورنگزیب عالمگیر کی حکومت میں سندھ کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سروے کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں چار سو کالج موجود تھے جہاں جدید و قدیم علوم کی تعلیم دی جارہی تھی۔
کثیر المذاہب کے حامل اس خطے میں کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جاتی تھی، ہندو، سکھ، پارسی یا دیگر مذاہب کے تمام افراد کے لیے تعلیمی ادارے موجود تھے اور مرکزی و مقامی حکومتیں ان کی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔
تعلیم کے فروغ کی خاطر یہاں کے مقامی افراد تعلیمی اداروں کے لیے زمین وقف کرتے تھے اور ان اداروں کی مالی امداد کرنا بھی فرض سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی سامراج کی ہندوستان پر حکومت سے قبل یہی سسٹم رائج تھا۔
جب دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹی تو حیات حافظ رحمت کے مطابق صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع میں پانچ ہزار علماء کرام درس و تدریس پر معمور تھے اور ان کی تنخواہیں حافظ الملک کی ریاست ادا کرتی تھی۔
مسلمان حاکموں نے یہاں کے تمام مدارس یا درسگاہوں میں دینی تعلیم اور سائنس کی تعلیم کو یکجا طور پر پڑھانے کا نظام وضع کیا تھا۔ مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر کی مثال ثبوت کے لیے کافی ہے۔
یہ تعلیمی ڈھانچہ ہی تھا کہ جب ہم جماعت مسقتبل میں عملی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں تو ایک مجدد وقت ٹھہرا اور
دوسرے نے سول انجینئرنگ کے شعبے میں ایسا شاہکار و عجوبہ تخلیق کر ڈالا جس کی داد دیے بغیر کوئی نہیں رہتا۔ تاج محل کی تعمیر میں سول انجینئرنگ سے لے کر فزکس، جیومیٹری اور ریاضی کے اُصولوں کا جس طرح استعمال ہوا ہے آج بھی لوگ انگشت بادندان ہیں۔
یہ فن تعمیر کا شاہکار یہاں کے تعلیمی نظام کے جامع ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔
اس تعلیمی نظام نے انسان دوست سماج پیدا کرنے میں مدد دی۔ جس میں اُس وقت کے مدارس، اساتذہ اور حکومت برابر کی حصہ دار ہے۔ جس کے باعث لاکھوں میل پر پھیلے اس خطے کو سیاسی طور پر مضبوطی سے جوڑنے میں مدد ملی۔ جنگ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور انگریز نے پورے ہندوستان میں اپنی حکومت کا جھنڈا لہرا دیا۔ اپنی سیاسی حکومت کی تقویت اور نظام مملکت کو اپنے تابع بنانے کے لیے تعلیمی ڈھانچہ کو از سرنو ترتیب دینے کا آغاز کیا۔
لارڈ میکالے کو جب اس ڈھانچے کو بدلنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو میکالے نے جو تعلیمی سفارشات مرتب کیں اس میں لکھا کہ اگر ہم اس قوم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا، یہاں کی ثقافتی روایات بھی تبدیل کرنا ہوں گی۔
ان سفارشات کو جب انگریز حکمرانوں نے حکمت عملی کی شکل دی تو پہلے یہاں پر مذہبی تعلیم کے اداروں کو سائنسی تعلیم سے الگ کیا۔ بعد میں انہی مذہبی اداروں کے ذریعے سے فرقہ واریت کا بیج بویا گیا۔
حکومت نے جب انگریزی تعلیم کو لازم قرار دیا اور انگریزی اداروں سے فارغ التحصیل افراد کو سرکاری نوکریاں ملنے لگیں تو مذہبی اداروں کے فارغ التحصیل سرکاری نوکریوں کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے۔
حتیٰ کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جاتی تھی۔ حکومت کے اس رویے سے جہاں مذہب کی تعلیم دینے والے اساتذہ کا روزگار زندگی متاثر ہوا وہیں یہاں کے تعلیم یافتہ بھی بے یارو مددگار ہونے لگے۔
انگریز حاکموں نے یہ منظم سوچ بلکہ سازش کے تحت کیا جس لامحالہ مقصد اپنی حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔ جب مذہبی تعلیمی اداروں کی نگہداشت چھوڑی گئی تو یہ ادارے صرف رسمیت تک محدود ہوگئے جس سے انگریز کے منصوبے کو مزید کامیابی ملی۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی کچھ رسومات و معلومات تو اگلی نسل کو منتقل ہو گئیں لیکن مدارس سے فارغ التحصیل طلبا عملی سماجی زندگی سے کٹ گے۔ ان اداروں کے فارغ التحصیل معاشی کسمپرسی کا شکار ہوئے تو ان کے نظریات بھی کمزور پڑ گئے اور نوجوانوں کی اکثریت بیکار کی زندگی گزارنے لگی۔
انگریز کی اس قدر ٹھوس منصوبہ بندی کے باوجود یہاں پر مزاحمتی سوچ کو پروان چڑھانے کے لیے کچھ خانقاہیں باقی گئیں جس میں شاہ ولی اللہ کے فلسفے کی بنیاد پر دیوبند کے مقام پر دار العلوم کا قائم ہونا سرفہرست ہے۔ اور جو مذہبی ادارے انگریزی سرپرستی میں چل رہے تھے وہ انہیں کے مفادات کی تکمیل کرنے میں معاون تھے۔ مذہب کی تعلیم کے ساتھ انگریز کا معاملہ یہ تھا تاہم انگریزی تعلیم یعنی کالجوں کے سسٹم کے ذریعے نوجوانوں کی اور کھیپ تیار کی جانے لگی۔
ان اداروں کے ذریعے یہاں کی روز مرہ کی زبان، ثقافتی اقدار، تاریخ اور روایات کے مقابلے پر مغربی ثقافت و زبان کی ترویج کی جانے لگی۔
ان سرکاری کالجوں اور جامعات میں نصاب تعلیم اور مضامین کا یوں انتخاب کیا گیا تاکہ انگریزی مفادات کی تکمیل کے لیے مقامی افراد تیار کیے جائیں۔ نصابی کتابوں نے ہی یہاں کے نوجوان کے ذہن پر کاری ضرب لگائی نوآبادیاتی دور میں انگریز کی پالیسی کا تسلسل جاری رہا اور مابعد نوآبادیات میں انگریز کے قائم کردہ یہ ادارے پاکستان کو وراثت میں مل گئے۔
یوں ہم آزاد ٹھہرے سیاسی اداروں کی تشکیل میں اور معاشی منصوبہ بندیوں کو آگے بڑھانے میں۔ تاہم انگریز دور کا تعلیمی فلسفہ ہم نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اپنایا اور پھر اس خطے کی شاندار تاریخ سے نفرت، بیگانگی کو پاکستان کی نوجوان نسلوں میں منتقل کیا۔ یہاں پر بھی نصاب تعلیم کو بطور تلوار استعمال کیا گیا۔
میں خود تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوں تو جامعات کے اساتذہ کے ساتھ براہ راست گفت و شنید رہتی ہے۔ چند روز پہلے میرے ساتھی اُستاد نے اپنی کلاس کا واقعہ سنایا۔ اس دوست نے کلاس روم میں بیھٹے طلباء سے سوال پوچھا؛ کہ اسلامی تاریخ میں خلفائے راشدین کی تعداد کتنی ہے اور ان کی ترتیب کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں پچاس طلباء میں سے صرف پانچ نے جواب دینے کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور ان پانچ میں سے بھی صرف دو طالب علموں کو خلفائے راشدین کے نام ترتیب کے ساتھ معلوم تھے۔
ایک اور سوال بھی اسی کلاس سے پوچھا گیا، حالات حاضرہ پر مبنی اس سوال میں پوچھا گیا کہ پنجاب کے موجودہ گورنر کا نام بتا دیجیئے؟ تو جواب کے لیے صرف آٹھ طالبعلموں نے ہاتھ اُٹھایا۔ان دو سوالوں کو بطور کیس سٹڈی سامنے رکھنا اس لیے ضروری سمجھا کہ ہم اپنے نظام تعلیم میں پڑھائے جانے والے نصاب اور طریقہ تدریس کو جانچ پرکھ سکیں۔
انگریز کے تعلیمی فلسفے کے تسلسل کو جب ہم نے اپنے ملک میں رائج کیا تو نتیجے میں مذہب اور دُنیا الگ الگ ٹھہری۔ قومی سوچ، مفاد عامہ کا خیال طلباء کی انفرادی زندگی سے ناپید ہوا اور قومی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے بلکہ ہورہے ہیں۔
آج بھی پاکستان میں دین اور دُنیا کے تعلیم کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والا نوجوان دین کی تعلیمات سے محروم ہے جبکہ دینی اداروں میں پڑھنے والے طالب علم جدید علوم سے ناواقف ہے۔ یہی تقسیم ملک کو کمزور کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟
پاکستان میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا مقصد نوکری ٹھہرا اور وہ بھی شاید صلاحیت کی بنیاد پر کم ملتی ہے۔ جس طرح نوآبادیاتی دور میں انگریز نے اس خطے کے تعلیمی ڈھانچے کو غیر پیداواری بنیادوں پر استوار کیا، آج پاکستان میں بھی تعلیمی نظام غیر پیداواری ڈھانچے پر کھڑا ہے جو ملکی معیشت تگڑی کرنے کی بجائے انتظامی مشینری چلانے کے لیے مزدور پیدا کر رہا ہے۔
یہاں کے تعلیمی فلسفے سے خدا شناسی، علم دوستی کا تصور خارج ہے شاید ریاست اسی پر اکتفا کیے ہوئے ہے کہ یہاں کے 97 فیصد عوام پیدائشی طور پر مسلمان ہی ہیں انہیں خدا شناسی کا تصور پڑھانے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
ہمارا فارغ التحصیل اپنی ڈگری لے کر مغربی ممالک کا ویزا تلاش کرنے میں توانائیاں خرچ کرتا نظر آتا ہے۔ یہ نتائج ریاست کی جانب سے تعلیمی ضروریات کو مقامی ضرورت کے ساتھ نہ جوڑنے کے باعث پیدا ہورہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ نوآبادیاتی دور کے تعلیمی اداروں کی توسط سے غیر ملکی قوت پاکستان کو اپنے کنٹرول میں کیے ہوئے ہے؟