پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم پر مدافعتی ادویات بے اثر

  • February 24, 2018 1:06 pm PST
taleemizavia single page

رپورٹ

پاکستانی اور غیرملکی ماہرین کی تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ملنے والی ٹائیفائیڈ کی ایک ایسی نئی قسم کے جائزے سے معلوم ہوا ہے اس پر مدافعتی ادویات کا اثر نہیں ہو رہا ہے اور ماہرین اس پر قابو پانے کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی اور برطانیہ کی کیمبرج یونیوسٹی کے طبی ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس نئی قسم پر بہت کم اینٹی بائیوٹکس اثر کرتی ہیں اور یہ دوبارہ خوبخود جنم لے لیتا ہے۔

ٹائیفائیڈ کا یہ جراثیم 14 ماہ قبل سب سے پہلے صوبہ سندھ میں دریافت ہوا تھا اور اب ملک کے کئی مقامات اور برطانیہ تک بھی پھیل چکا ہے۔

محققین کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں یہ مزاحمتی ٹائیفائیڈ بیکٹیریا حیدرآباد کے متصل اضلاع تک پھیل گیا ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ پورے پاکستان میں بھی پھیل سکتا ہے کیونکہ اس کا علاج مہنگا اور پیچدہ ہے۔

صوبائی ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر محمد اخلاق خان نے بی بی سی کو بتایا کہ حیدرآباد کے علاوہ ٹنڈو الہ یار، بدین اور جام شورو اضلاع میں بھی یہ ٹائیفائیڈ بیکٹیریا رپورٹ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹائیفیڈ نومبر 2016 کو پہلی مرتبہ رپورٹ ہوا تھا اور اس میں تین سے پانچ سال کی عمر کے بچے متاثر ہو رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ اب آغا خان یونیورسٹی کی مدد سے اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کی جارہی ہیں اور یونیورسٹی نے ڈھائی لاکھ ویکیسین فراہم کی ہیں۔ اس کے علاوہ محکمۂ صحت نے بھی آگاہی کی مہم شروع کی ہے اور عالمی ادارے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تعاون سے کلورین کی ٹیبلٹس بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

آغا خان یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد اور قاسم آباد اس ٹائیفائیڈ جراثیم سے سب سے زیادہ متاثرہ تعلقے ہیں جن کے تقریباً 250,000 بچوں کو نئی ٹائپ بار۔ ٹی وی سی ویکسین دی جارہی ہے۔

یہ ویکسین اس قسم کے ٹائیفائیڈ کی روک تھام کا موثر ترین حل ہے کیونکہ اینٹی بائیوٹکس ادویات کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث دیگر موجودہ ادویات اس کے علاج میں غیر موثر ثابت ہو رہی ہیں۔

حیدرآباد کی متاثرہ تحصیل قاسم آباد کے سرکاری ہسپتال میں بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر غزالہ شیخ کا کہنا ہے کہ مئی 2017 سے انھوں نے اس ٹائیفائیڈ کو نوٹس کیا۔ اُن دنوں اگر ان کے پاس روزانہ دس مریض آرہے تھے تو ان میں سے آٹھ ٹائیفائیڈ کے بخار میں مبتلا تھے۔

‘یہ سلسلہ نومبر تک جاری رہا لیکن اب ب روزانہ ایک دو مریض آرہے ہیں۔ ان مریضوں کی عمر 3 سال سے لے کر 12 سال کے درمیان میں ہوتی ہیں اور زیادہ تر لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔‘

بیکٹیریا کے بارے میں معلوم کیسے ہوا؟

ڈاکٹر غزالہ شیخ کا کہنا ہے کہ اینٹرک فیور( ٹائیفائیڈ کا بخار) میں جو عام طور پر اینٹی بائیوٹکس استعمال کرتے ہیں مریضوں کو وہ ہی دی گئیں لیکن چار روز گزرنے کے باوجود بھی اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تو پھر انھوں نے مریضوں کے ٹیسٹ کرائے جس کے نتائج پازیٹو آئے۔

بلڈ اور کلچر ٹیسٹ مہنگا ہے اس لیے ہم نے آغا خان ہسپتال حیدرآباد کو بھی شامل کیا۔ان ٹیسٹوں کی رپورٹس سے ہمیں پتہ چلا کہ جو معمول کی اینٹی بایوٹکس ہیں وہ اس پر اثر نہیں کر رہی ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے پیتھالوجی شعبے کی ڈاکٹر رومینہ حسن کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا ڈی این اے میں تبدیلی لاسکتے ہیں اور اس تبدیلی کے نتیجے میں وہ خود کو اینٹی بایوٹکس سے محفوظ کرلیتے ہیں اور ان پر یہ دوائیں اثر نہیں کرتی۔

آغا یونیورسٹی کی تحقیق میں اس ٹائیفائیڈ کی وجہ آلودہ پانی قرار دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر رومینہ حسن کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کا بیکٹیریا مریض کے فضلے میں نکلتا ہے جو پانی میں شامل ہوجاتا ہے۔ اگر یہ پانی استعمال ہو یا اسے دیگر اشیا میں استعمال کیا جائے تو یہ بیکٹیریا انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔

ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹر محمد اخلاق خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہ سہولیات موجود نہیں جس سے پانی میں موجود جراثیم کی شناخت کی جاسکے، امکانات کی بنیاد پر تو کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بیکٹیریا پانی کی وجہ سے پھیلا۔

ڈاکٹر غزالا شیخ کا کہنا ہے کہ ویسے تو ٹائیفائیڈ پانی سے جنم لینے والی بیماری ہیں لیکن اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں لہذا انھوں نے والدین کو کہا ہے کہ وہ غیرمعیاری منرل واٹر کی بوتلوں والا پانی استعمال نہ کیا کریں اور پانی ابل کر پیئیں، صفائی ستھرائی رکھیں اور بچوں کو بازار کی چیزیں نہ دلائیں۔

یاد رہے کہ حیدرآباد اور آس پاس میں پینے کی فراہمی کے لیے مہیا کیے جانے والی پانی کے معیار پر شکایات سامنے آتی رہی ہیں اور عدالت کے احکامات پر اس کی تحقیقات بھی کی جارہی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ 2016 اور 2017 کے 10 ماہ کے مختصر وقت میں صرف حیدرآباد میں ادویات کے خلاف مزاحمتی ٹائیفائیڈ کے 800 سے زائد کیسز ایک خطرناک اشارہ ہے کیونکہ 2009 سے 2014 کے پانچ سالہ عرصے کے دوران پاکستان بھر میں ایسے صرف 6 کیسز کی نشاندہی ہوئی تھی۔

آغا خان یونیورسٹی کے پیڈیاٹرک اینڈ چائلڈ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرح قمر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں یہ اینٹی بائیوٹکس ادویات کے خلاف مزاحم ٹائیفائیڈ کی پہلی وبا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *