کیا ناسا کی دوربین خلائی مخلوق کا سراغ لگا پائے گی؟

  • September 9, 2018 1:46 pm PST
taleemizavia single page

بی بی سی

ناسا کی جیمز ویب دوربین 2021 میں مقررہ وقت پر خلا میں بھیج دی گئی تو یہ واقعہ خلائی سائنس میں انقلاب سے کم نہیں ہو گا۔ ناسا کا کہنا ہے کہ یہ دوربین ‘ماضی میں جھانک کر ابتدائی کائنات کی اولین کہکشاؤں کو دیکھ سکے گی۔’

جے ڈبلیو ایس ٹی کہلانے والی یہ دوربین مشہورِ زمانہ ہبل دوربین کی جانشین ہو گی اور زمین سے 15 لاکھ کلومیٹر کی دوری پر سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے کائنات کی اتھاہ وسعتوں میں موجود رازوں سے پردے اٹھائے گی۔ اس دوربین میں ساڑھے چھ میٹر قطر والے طلائی آئینے کے علاوہ حساس ترین کیمرے نصب ہیں، جن کی وجہ سے یہ ایک اور غیر معمولی کام کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

وہ یہ کہ جیمز ویب دوربین دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی فضا کا جائزہ لے کر وہاں پائی جانے والی ممکنہ زندگی کا سراغ لگانے کی بھی اہل ہو گی۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ منصوبہ بمشکل امریکی حکومت کی منظوری حاصل کر سکا، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر دس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔

یونیورسٹی آف واشنگٹن کے ماہرِ فلکیات جاشوا کرسنسن ٹوٹن اور ان کی ٹیم نے یہ جائزہ لینے کی کوشش کی کہ یہ دوربین کیسے خارجی سیاروں کی فضا میں زندگی کے آثار کا سراغ لگائے گی۔ انھوں نے کہا: ‘ہم اگلے چند برسوں میں زندگی کا کھوج لگانے والے مشاہدات کر سکیں گے۔’

جیمز ویب دوربین اس قدر حساس ہے کہ یہ درجنوں نوری سال کی دوری سے بھی سیاروں کی فضا میں پائے جانے والے ‘کیمیائی عدم توازن’ کو پکڑ سکتی ہے۔ فضا میں یہ عدم توازن سیارے پر موجود زندگی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر زمین کی فضا میں زندگی کے بغیر آکسیجن نہیں ہونی چاہیے تھی اور یہ آکسیجن یہاں پائے جانے والے پودوں کی مرہونِ منت ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی اور سیارے کی فضا میں آکسیجن بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے تو یہ زندگی کی علامت ہو سکتی ہے۔

کیمیائی عدم توازن کا کھوج

لیکن دوسری طرف ہو سکتا ہے کہ کسی اور سیارے پر پائی جانے والی زندگی کی کیمسٹری زمینی مخلوق سے بالکل مختلف ہو اور وہ آکسیجن کے علاوہ کسی اور عنصر سے توانائی حاصل کرتی ہو۔ لیکن جیمز ویب اس کا بھی پتہ چلا سکتی ہے۔ اگر کسی سیارے کی فضا میں ‘عدم توازن’ موجود ہے، تو وہ ممکنہ طور پر زندگی کا پیدا کردہ ہو گا۔

کسی اور ستارے کے گرد کسی سیارے کی موجودگی کا پتہ اس وقت چلایا جا سکتا ہے جب یہ سیارہ گردش کرتے ہوئے اپنے ستارے کے سامنے آ جائے اور ستارے کی روشی لمحاتی طور پر مدھم ہو جائے۔

سیارے کی فضا میں موجود گیسوں کی وجہ سے وہاں سے آنے والی روشنی تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس روشنی کے رنگوں (یعنی ویو لینتھ) کا مطالعہ کر کے سیارے کی فضا میں پائی جانے والی گیسوں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔

آسمان میں کس طرف دیکھا جائے؟

کرسنسن ٹوٹن کے مطابق اگر جے ڈبلیو ایس ٹی تقریباً 40 نوری سال دور مشتری کی جسامت کے ستارے ٹراپسٹ ون پر توجہ مرکوز کرے تو وہاں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس ستارے کے گرد سات سیارے گردش کر رہے ہیں جن میں سے کئی ایسے ہیں جہاں پانی مائع حالت میں رہ سکتا ہے۔ ان میں سے ٹراپسٹ ون نامی ایک سیارہ خاص طور پر دلچسپ ہے جو بظاہر زمین سے ملتا جلتا ہے۔

وہاں سے آنے والی روشنی انتہائی مدھم ہو گی اور اس کا مشاہدہ کرنا آسان نہیں لیکن کورنیل یونیورسٹی کے ماہرِ فلکیات جوناتھن لونائن کہتے ہیں کہ ‘جے ڈبلیو ایس ٹی کی مدد سے ایسا کرنا ممکن ہے۔’

تاہم یہ معلوم کرنا بھی اہم ہو گا کہ کہیں یہ عدم توازن کسی قدرتی عمل کا حصہ تو نہیں؟ مثلاً زمین پر بڑے پیمانے پر پھٹنے والے آتش فشاں بھی فضا میں موجود گیسوں کا توازن بگاڑ سکتے ہیں۔ تاہم کرسنسن ٹوٹن کے مطابق کئی بار پیمائش کر کے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ آیا یہ عدم توازن قدرتی ہے یا زندگی کا پیدا کردہ، کیوں کہ آتش فشانی عدم توازن وقتی ہو گا۔

دوسرے حریف

تاہم جے ڈبلیو ایس ٹی واحد دوربین نہیں ہے جو خلائی مخلوق کی سراغ لگانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہوائی اور چلی میں دو بڑی دوربینیں تیار کی جا رہی ہیں، جب کہ سیاروں کی فضا کا مشاہدہ کرنے والا یورپی یونین کا ایریئل مشن 2020 کے اواخر میں خلا میں بھیجا جائے گا۔

ان سب منصوبوں کے درمیان ایک قسم کی دوڑ ہے کہ کون سب سے پہلے کسی خلائی مخلوق کا سراغ لگاتا ہے۔ برطانوی سائنس دان جلیئن رائٹ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے خلا میں کوئی ایسا آلہ نہیں تھا۔ ‘جے ڈبلیو ایس ٹی کائنات میں نئی کھڑکیاں کھولنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *