مغل بادشاہ تو آدھے “ہندو” تھے
- November 30, 2017 12:29 am PST
افسر احمد
اگر آپ تاج محل کو ہندوستانی تاریخ پر دھبہ مانتے ہیں تو یقینا مغل وراثت کو بھی مانیں گے ، لیکن اگر یہ کہیں کہ جنہوں نے تاج محل بنایا ، وہ مغل نہیں تھے تب آپ کیا کہیں گے ۔ اگر آپ تاریخ کے صفحات کھنگالیں گے تو پتہ چلتا ہے کہ مغل اصل میں کوئی قوم نہیں تھی ۔ یہی نہیں بابر اور ہمایوں کے بعد وہ پوری طرح مغل بھی نہیں رہے تھے ۔
اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگر مغلوں پر سوال اٹھایا جاتا ہے تو وہ راجپوت اور جاٹوں پر بھی سوال اٹھانے کے مترادف ہوگا ، کیونکہ اکبر کے عہد سے ہی تقریبا ہر مغل حکمراں کی رگوں میں راجپوتی خون بہہ رہا تھا ۔ اس بات کو تسلیم کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ مغلوں کی ہندوستانی حکمرانوں میں ہوئی شادیاں اور دوسری وجہ مغلوں کی فوج اور انتظامیہ میں ان کا عمل دخل ۔
اکبر جانتے تھے کہ ہندوستان میں جڑیں جمانے کیلئے انہیں راجپوتوں کا اعتماد حاصل کرنا ضروری تھا اور اس کیلئے انہوں نے خاندانی تعلقات کا طریقہ ڈھونڈا ۔ اس کے نتیجہ میں اکبر کے دور میں مغلوں کی راجپوت سے مجموعی طور پر چونتیس شادیاں ہوئیں ۔ اس کے بعد تو راستہ ہی کھل گیا ۔ جہانگیر کے وقت میں سات ، شاہ جہاں کے وقت میں چار اور اورنگ زیب کے دور میں مغل حکمرانوں کی راجپوتوں سے کل آٹھ شادیاں ہوئیں ۔ جہانگیر کی ماں مریم الزمانی یعنی جودھا بائی راجپوت خاتون تھیں ۔ اگرچہ اس کو لے کر اختلاف بھی ہے ۔ تاہم جہانگیز کی ہندو اہلیہ جگت گوسائیں شاہ جہاں کی والدہ تھیں ۔
سن پندرہ سو ستاسی میں جہانگیز اور موٹا راجا کی بیٹی جگت گوسائیں کی شادی ہوئی ، جس سے پانچ جنوری 1592ء کو لاہور میں شاہ جہاں پیدا ہوئے ۔ اکبر نے پیدائش کے چھٹے دن خوشی میں اس کا نام خرم رکھا ۔ جہانگیر کی اہلیہ نور جہاں کا کافی تذکرہ ہوتا ہے ، مگر شیر کے حملہ سے انہیں دراصل ان کی راجپوت بیوی جگت گوسائیں نے ہی بچایا تھا ۔ تزک جہانگیر کے مطابق انہوں نے پستول بھر کر چیلا چلادی ، جس کے بعد جہانگیر کی جان بچی ۔ نور جہاں اس کے بعد خود شکار کرنا سیکھیں ۔
یعنی شاہ جہاں کے بیٹے اورنگ زیب کی دادی ایک راجپوت تھیں ۔ غور طلب یہ بھی ہے کہ مغلوں اور راجپوتوں کے درمیان شادیاں اورنگ زیب کے وقت میں بھی جاری رہیں ۔ خود اورنگ زیب کی دو اہلیہ ہندو تھیں اور ان سے پیدا ہوئے بچے کئی مرتبہ باقاعدہ جانشیں کی جنگ میں جیتے ۔
کلینیکل امیونولاجسٹ ڈاکٹر اسکند شکلا کے مطابق مغل بادشاہوں اور راجپوت رانیوں سے پیدا ہونے والی اولاد آدھی راجپوت ہوں گی ان کا کہنا ہے کہ جینیٹکس کے مطابق اولاد میں آدھی کوالیٹی یعنی تئیس کروموسوم والد کے اور تئیس کروموسوم ماں کے آتے ہیں چونکہ مغلوں کا نسب والد سے منسوب تھا ، اس لئے انہیں مغل مانا گیا ، مگر بائیولوجیکل کے طور وہ آدھے ہندوستانی ہوچکے تھے ۔ یہی نہیں ڈاکٹر اسکند کہتے ہیں کہ اگر اس طرح کی شادیاں لگاتار جاری رہتی ہیں تو اگلی نسلیں پحھلی کوالیٹیوں کو گنوا دیتی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے نظریہ سے بعد کی نسلوں میں راجپوتی کوالیٹی زیادہ اور غیر ملکی کوالیٹی کم ہو گئی ہوں گی ۔
راجپوتوں کی بیٹیاں صرف حرم تک ہی محدود نہیں تھیں ، بلکہ وہ بادشاہوں کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہوتی تھیں ۔ بدایونی لکھتے ہیں کہ اکبر نے اپنی ہندو بیویوں کے کہنے پر ہی بیف ، لہسن اور پیاز کھانا چھوڑ دیا تھا ۔ سولہ سو چار میں حمیدہ بانو بیگم کی موت کے بعد اکبر نے سر منڈوایا تھا ، کیونکہ یہ ایک ہندو رانی کی خواہش تھی ۔ سولہ سو ستائیس میں شاہ جہاں کی راٹھور اہلیہ جودھپور میں آٹھ دن صرف اس لئے رکیں ، تاکہ وہ اپنے شوہر شاہ جہاں کیلئے ضروری حمایت حاصل کرسکے ۔ سولہ سو پانچ میں جہانگیز نے اپنی ہندو اہلیہ کی موت کے غم میں چار دن کھانا نہیں کھایا ۔ تزک جہانگیز میں اس کا تفصیل سے تذکرہ ہے ۔
مغل سامراج کو کھڑا کرنے والے غیر ملکی نزاد نہیں بلکہ پوری طرح سے ہندوستانی اور اپنی بہادری کیلئے مشہور راجپوت ، جاٹ اور پٹھان تھے ۔ برنیئر بتاتے ہیں کہ مغل فوج میں راجپوت ، پٹھان ، ایرانی ، ترک اور ازبک شامل تھے اور ان میں جو گورا یعنی سفید رنگ کا ہوتا تھا تو اسے مغل مان لیا جاتا تھا ۔ مغل فوج میں پیدل ، گھڑسوار اور توپ خانہ تینوں میں کل اسی فیصد سے زیادہ راجپوت ، جاٹ اور پٹھان ہوتے تھے اور باقی غیر ملکی نزاد فوجی ۔
یہی نہیں فوج میں منصب داروں کو پیدل اور سوار جاٹ ، راجپوت یا پٹھان ملتے تھے ۔ مثال کیلئے باد شاہ کی جانب سے ایک ہزاری کے عہدہ کا مطلب تھا کہ اس منصب پر فائز شخص کو ایک ایک ہزار یعنی ایک ہزار پیدل جاٹ اور ایک ہزار گھڑ سوار فوج رکھنے کا حق تھا ۔ اطہر علی نے الگ الگ بادشاہوں کے دور میں منصب داروں کی صورتحال کو بخوبی بیان کیا ہے ۔
اسے دیکھ کر آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ چار بڑے مغل بادشاہوں کے دور میں راجپوت ، دیگر ہندو اور ہندوستانی مسلمان منصب داروں کی ساجھیداری تقریبا آدھی تھی ۔ غور طلب ہے کہ یہ صرف عہدیدار تھے ، ان کی فوج غالبا راجپوتوں ، جاٹوں اور پٹھانوں سے مل کر بنتی تھیں ۔ چونکانے والی بات یہ بھی ہے کہ اورنگ زیب کے وقت میں نہ صرف راجپوت منصب دار بلکہ مراٹھا منصب داروں کی تعداد دیگر مغل بادشاہوں کے مقابلہ میں زیادہ تھیں ۔ کابل ، قندھار ، برما اور تبت تک سامراج کی توسیع کیلئے اگر مغلوں کو کسی پر سب سے زیادہ اعتماد تھا تو وہ راجپوت تھے ۔
جب شیواجی کو روکنے کیلئے اورنگ زیب کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں تو اس وقت کے سب سے بڑے منصب دار اور اپنے سمدھی مرزا راجا جے سنگھ کو اس نے دکن بھیجا ۔ جے سنگھ نے ایک کے بعد ایک قلعے فتح کر کے شیوا جی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ۔ جادو ناتھ ، سرکار شیوا جی اینڈ ہیز ٹائمس میں لکھتے ہیں کہ کیسے جے سنگھ نے گیارہ جون سولہ سو پینسٹھ کو پالکی میں انتظار کررہے شیواجی سے صرف اسی شرط پر ملنے کی منظوری دی کہ وہ شیواجی کی کوئی بھی شرط نہیں مانیں گے اور انہیں اپنے تمام قلعے کسی شرط کے بغیر مغلوں کو سونپنے ہوں گے ۔ شیواجی نے شرط تسلیم کرلی اور اورنگ زیب کے دربار میں آنے پر مجبور ہوگئے ۔
جے سنگھ کا عہدہ اتنا بڑا تھا کہ ان کے کہنے پر اورنگ زیب نے دارا شکوہ کا موقف لینے والے راجا جسونت سنگھ تک کو معاف کردیا تھا اور ان کا عہدہ بھی برقرار رکھا تھا ۔
راج کمار شاہ نے جب آگرہ کے تخت کیلئے پیش قدمی کی تو اسے روکنے کیلئے شاہ جہاں نے راج کمار سلیمان شکوہ کے ساتھ راجا جے سنگھ اور انیرودھ گوڑ کو بھیجا ۔ بڑی تعداد میں راجپوتوں نے تخت کی لڑائی میں اورنگ زیب کا ساتھ دیا ۔ ان میں شبھ کرن بندیلا ، بھاگوت سنگھ ہاڑا ، منوہر داس ہاڑا ، راجا سارنگم اور رگھوناتھ راٹھور اہم تھے ۔
زیادہ تر راجپوت راجاوں نے تخت کی لڑائی میں شاہ جہاں اور اس کے بیٹے بیٹے دارا شکوہ کی مخالفت کی تھی ۔مغل انتظامیہ کا حصہ رہے راجپوت راجاوں نے متعدد شہر بسائے اور مندر تعمیر کروائے ۔ مثلا راجا مان سنگھ نے بنگال میں راج محل نگر ، راو کرن سنگھ نے دکن میں کرن پورہ ، رام داس کچھواہا اور رام منوہر نے پنجاب میں باغ بنوائے ۔ مان سنگھ نے اڑیسہ میں اور بیر سنگھ بندیلا نے متھرا میں مندر کی تعمیر کروائی ۔ راو کرن سنگھ نے ناسک کے مندروں کو خطیر عطیہ دیا اور یہ سبھی مغل انتظامیہ کا حصہ تھے ۔
ایسے میں اگر مغل کا مطلب صرف غیر ملکی حملہ آور مسلمان ہے تو یہ مضحکہ خیز تو ہے ہی صحیح بھی معلوم نہیں ہوتا ۔ ہندوستان میں حملہ آور کے طور پر وہ آئے تو تھے ، مگر وہ اگر یہاں رکے تو شاید اس لئے کیونکہ انہوں نے کسی ترد کے بغیر یہاں کی طاقتوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیا اور ان سے گہرے خاندانی رشتے نبھائے ۔ حالانکہ اس کی وجہ سے وہ اپنی شناخت کھو کر یہیں گھل مل گئے ۔
افسر احمد تاریخ پر لکھنا، پڑھنا پسند کرتے ہیں،وہ ہندوستان میں رہتے ہیں اور مغل حکمرانوں کا ایک نئے نقطء نظر سے دفاع کیا ہے۔
حضرت! بہت چشم کشانگارش ہے۔۔۔۔مگراس احقرکی رائے میں تمام مآخذکاآخرمیں اندراج ضروری ہے