اسسٹنٹ کمشنر عفت النساء اور گستاخ پروفیسر

  • May 13, 2017 9:47 am PST
taleemizavia single page

محمد عاصم حفیظ

ہمارے معاشرتی زوال کی ایک داستان رقم ہوئی ہے سرگودھا کے کالج میں ۔ وہاں کی ملکہ عالیہ(اسسٹنٹ کمشنر) محترمہ عفت النساء انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا سینٹر چیک کرنے گورنمنٹ بوائز کالج کوٹ مومن تشریف لے گئیں اب بھلا اتنی بڑی آفیسر کہیں جائیں اور افراتفری نہ مچے یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔

ملکہ عالیہ نے اپنی افسری دکھانے کا فیصلہ کیا ، پرنسپل کی کرسی پر قبضہ جمایا اور شاہی حکم سنایا کہ حاضری رجسٹر چیک کرایا جائے ۔ وہاں صحافت کے ایک استاد محترم پروفیسر اظہر شاہ نے عرض گزاری کہ محترمہ، پرنسپل کی کرسی پر براجمان ہونا اور استاذہ کی حاضری چیک کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔

یہی وہ لمحہ تھا کہ ملک کے شاہی خاندان (بیوروکریسی)سے تعلق رکھنے والی سترہویں گریڈ کی آفیسر جلال میں آگئیں اور فرمان جاری ہوا کہ ” پرنسپل اور پروفیسر میرے تلوے چاٹتے ہیں “۔

اختیارات کے گھوڑے پر سوار خود کو تحصیل کی مالک سمجھنے والی اے سی کوٹ مومن کی جھوٹی انا نے اس کے دماغ کو دبوچ لیا اور یہ جانے بغیر کہ وہ اس وقت جس سے مخاطب ہے وہ اس کی باپ کی عمر کا شخص ہے، اُستاد ہے قوم کا محسن ہے۔

جناب اسسٹنٹ کمشنر کو بیوروکریسی کی صحبت میں شاید اساتذہ کے ساتھ سلوک رکھنے کا یہی سبق پڑھایا اور سمجھایا گیا تھا، یا ان کی صحبت بُری ہے یا پھر تربیت میں کوئی کسر رہ گئی ہے۔

ایسا کوئی کسی ریاست کی ملکہ عالیہ ہی ارشاد فرما سکتی ہے کہ رعایا کے کمی کمین اس کے تلوے چاٹتے ہیں محترمہ عفت النساء نے اس گستاخ پروفیسر کو زندان میں ڈالنے کا حکم جاری کیا ۔

ان کے خاوند حضور پولیس ڈپارٹمنٹ میں ہوتے ہیں ۔گویا سسرال کے محکمے نے بھی فوری حکم کی بجاآوری کی اور ”دہشت گرد، مجرم اور گستاخ “ پروفیسرکو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ سرگودھا کی ائیر فورس تو دنیا بھر میں اپنی پھرتی میں مشہور ہے لیکن آج سے وہاں کی پولیس نے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا ہے ۔ اتنی پھرتی سے ”مجرم “ گرفتار ہوا ۔

پروفیسر اظہر شاہ کی گرفتاری ہمارے معاشرے کے منہ پر ایک تمانچہ ہے ۔ جی ہاں ۔ حقیقت میں ہماری قوم اپنے استادوں کو یہی عزت دیتی ہے ۔ دنیا بھر میں روایت تو یہی ہے کہ استاد کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ کیا بڑا آفیسر ہونے سے باپ کی عزت سے دستبردار ہو جاتے ہیں ۔

بنیادی مسئلہ یہاں کچھ اور بھی ہے۔ کرپٹ سیاسی حکمرانوں نے ہمیشہ بیوروکریسی کے کندھوں کا سہارا لے کر اپنی حکومتیں چلائی ہیں اور بیوروکریسی کو ملک کے شاہی خاندان کو درجہ دیا گیا۔ طاقت ور افسر شاہی نے ہمیشہ ملک میں سیاسی، جمہوری یا پھر آمریت کی حکومت میں اپنی متوازی حکومت قائم رکھی ہے۔ ملک کی بربادی میں جہاں سیاستدان بنیادی ذمہ داری ہیں وہیں پر بیوروکریٹ بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔

سرکاری کالج میں جا کر اُستاد کے ساتھ جو رویہ عفت النساء نے اختیار کیا یہ شاید کُرسی کا وہ نشہ تھا جو زیادہ چڑھ گیا اور وہ اس حد تک چلی گئیں کہ باپ کی تذلیل کرنا بھی معمولی سا لگا۔ اب سوال یہ ہے کہ سترہوویں گریڈ کے افسر کو 19 ویں گریڈ کے پروفیسر سے زیادہ طاقت ور کس نے بنایا؟

ہمارا ہاں کا المیہ تو یہی ہے کہ چھوٹے افسربڑے افسرا ن کی خوشامد کرتے ، جھڑکیں سنتے اور غلامی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ، جب انہی چھوٹے افسروں کا پالا عوام یا ماتحتوں سے پڑتا ہے تو اپنا غصہ خوب نکالتے ہیں ، افسری جماتے ہیں اور لوگوں کو احساس دلاتے ہیں کہ وہی حکمران ہیں اور باقی سب غلام ۔

کاش سرگودھا کی اسسٹنٹ کمشنر اپنا یہ رعب و دبدبہ اپنے سے بڑے کسی آفیسر کے سامنے دیکھانے کی جرات کر سکیں ہمارے یہ آفیسر جو اساتذہ اور دیگر محکموں کے ملازمین پر اپنا رعب جما کر خود کو آفیسر ہونے کا یقین دلاتے رہتے ہیں کبھی کسی سیاستدان کی حکم عدولی کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں ، وہاں تو ان کی اونچی آواز بھی نہیں نکلتی ۔

پروفیسر اظہر شیرازی واقعی مجرم ہیں کہ انہوں نے ایک غلام طبقے میں ہوتے ہوئے بولنے کی جرات کی ہے ۔ انہیں چند گھنٹوں کی بجائے کم سے کم اتنی دیر ضرور جیل میں رکھنا چاہیے تھا جب تک انہیں یقین نہ ہوجاتا کہ ان کا تعلق غلاموں سے ہے۔ بھلا ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی پروفیسر پنجرے میں قید رہ کر ذرا اونچی آواز میں بات کرنے کی جرات کرے۔

پروفیسر بیچارے غلام ہی تو ہوتے ہیں ۔ ڈینگی ڈھونڈنا یا مارنا ہوتو یہ پروفیسر حاضر ملتے ہیں اور وہ بھی ہر اتوار کے دن ، الیکشن ڈیوٹی پر تین دن کی ذلالت بھی انہی کے کھاتے میں آتی ہے ۔حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو گریڈ تو دیتی ہے لیکن ساتھ ساتھ ان کو ”اوقات“ بھی یاد دلاتی رہتی ہے۔

اگر آپ نے کبھی اس کا تجربہ کرنا ہوتو پنجاب سول سیکرٹریٹ چلے جائیں وہاں انیس ، بیس گریڈکے معزز پروفیسر صاحبان گردن جھکائے نئے نئے افسر بنے کسی سیکشن آفیسر کی جھڑکیاں سنتے اور ترلے منتیں کرتے ملیں گے جبکہ سترہ ، اٹھارہ گریڈ کے پروفیسروں کوتو وہاں کے نائب قاصد وغیرہ ہی جھاڑ پلا کر کسی بھی صاحب کے کمرے کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔

پروفیسر اظہر شیرازی کو کیا پتہ تھا کہ ان کا تعلق ایسے طبقے سے ہے جسے ملک میں صرف اتنی ہی عزت دی جاتی ہے جو کہ اچھالنے کے کام آ سکے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس معزز پروفیسر کو اتنے بڑے جرم کے بعد بڑوں کے عتاب سے محفوظ رکھے۔


asim hafeez

پروفیسر محمد عاصم حفیظ سرکاری کالج میں بطور اُستاد تعینات ہیں وہ پیشہ ور صحافی بھی رہ چکے ہیں۔

  1. اس اے سی کا ضرور احتساب ہو نا چاہیئے اور یہ احتساب صرف اور صرف عوام ہی کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں کہ ضمیر زندہ ہو اور جاگ رہا ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *