درسی کتب میں “مینار پاکستان” کی اُدھوری کہانی

  • March 23, 2017 6:13 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

انسان کے اندر انفرادی سطح پر تشخص و پہچان کی تڑپ صدیوں سے رہی ہے، اجتماعی سطح پر جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر الگ سے اپنا تشخص ابھارنا بھی کچھ کم پرانا نہیں ہے۔ یہ تشخص و پہچان تعمیرات میں بھی منتقل کیا جاتا ہے۔

تعمیرات میں کسی بھی شخصیت کے لیے، نظریے کے لیے، واقعہ کے لیے اینٹوں، سیمنٹ یا دیگر تعمیراتی سامان سے ایسی جیومیٹری یا عمارت بنانا جو آنے والے وقتوں میں متعلقہ شخصیت، نظریہ کو زندہ رکھ سکے، نہایت مشکل، نازک اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا متقاضی کام ہے۔

کیا کوئی عمارت، سٹرکچر، واقعہ، نظریہ یا شخصیت کا استعارہ بن سکتی ہے؟

شہروں میں یادگاری کے حوالے سے عمارات کی دو اہم اقسام بنتی ہیں، پہلی وہ عمارتیں ہیں جو کسی پرانے عہد کی یاد دلاتی ہیں، یہ عمارات دیکھنے والوں کے دلوں پر کوئی کیفیت پیدا کرنے کے لیے تعمیر نہیں کی گئی ہوتیں، بلکہ عہد گزشتہ کی عظمت و سطوت کی نشانی کے طور پر محفوظ رکھی جاتی ہیں؛

جیسے بادشاہی مسجد لاہور، قلعہ لاہور، مسجد وزیر خان، قلعہ روہتاس، قطب مینار، لال قلعہ، نور محل وغیرہ ان عمارات کو ماضی کی شاندار زندگی کے گواہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

دوسری قسم کی عمارات وہ ہیں جو کسی فرد یا واقعہ کی یادگار کے طور پر تعمیر کی جاتی ہیں جیسے 23 مارچ 1940ء کی قرار داد کیلئے مینار پاکستان کی تعمیر، 1974ء کی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے سمٹ مینار لاہور کی تعمیر، 1965ء کی جنگ میں کام آ جانے والوں کے لیے اولڈ جی ٹی روڈ کے کنارے جنگی یادگاروں کی تعمیر، والٹن میں مہاجر کیمپ کی یاد کے طور پر باب پاکستان لاہور کا زیر تعمیر منصوبہ قابل ذکر ہے جو واقعات کی یاد میں بنائے گئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان تعمیرات کا مقصد پورا ہوتا ہے، دیکھنے والوں کے بارے میں کیا رویہ یا رد عمل ہوتا ہے، کیا اُن کو وہ احترام دیا جاتا ہے جو ان کی تعمیر کے پیچھے ہوتا ہے؟

لاہور میں 23 مارچ 1959ء کو بلدیہ لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ملک عبد الطیف خان نے کارپوریشن کے اجلاس میں قرار داد پاکستان کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کرنے کے لیے باقاعدہ قرار داد پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔

اب 23 مارچ کو جس جگہ قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی یہ تاریخی جگہ ہے جہاں مغل بادشاہوں اور بعد میں برطانوی دور حکومت میں پریڈ گراؤنڈ تھا۔ اس جگہ پر فوجیوں کی ٹریننگ کے لیے پریڈ ہوا کرتی تھی جس کا نام بعد میں بدل کر لارڈ منٹو کے نام پر منٹو پارک رکھ دیا گیا۔ اس بڑے گراؤنڈ میں قیام پاکستان سے پہلے بھی اور بعد میں بھی میلے ٹھیلے لگائے جاتے اور یہاں پر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔

Minar-e-Pakistan 2

اب یہاں پر مینار پاکستان تعمیر کرنے کا جو ابتدائی ڈیزائن پیش کیا گیا اس میں 64 فٹ اونچا مینار کی تعمیر تھی جسے بعد میں تبدیل کر کے 99 فٹ کر دیا گیا۔ 22 اراکین پر مشتمل کمیٹی نے جس کا نام پاکستان میموریل کمیٹی تھا اس یادگار کو تعمیر کرنے کے لیے کام شروع کیا۔ 19 مارچ 1960ء کو اس یادگار کا سنگ بنیاد گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے رکھا اور اس موقع پر تین فٹ اونچا لکڑی کا ماڈل بھی رکھا گیا۔

اس ماڈل کا ڈیزائن یوں تھا، چاروں کونوں پر چار محرابیں تھیں، اس کے درمیان میں ایک آڈیٹوریم تھا اس کا تخمینہ 65 لاکھ روپے تھا۔ جس کے فنڈز جمع کرنے کے لیے مالیانہ اور آبیانہ کے ساتھ ایک یا دو پیسے فی روپیہ ٹیکس اور سینما ٹکٹوں کے ساتھ ایک آنہ فی ٹکٹ لگانے کا فیصلہ ہوا تاہم یہ رقم جمع نہ ہوسکی اور پھر 1962ء میں اس کی تعمیر ملتوی کر دی گئی۔

جب ملک امیر محمد خان گورنر بنے تو اُنہوں نے 65 لاکھ روپے کی لاگت والا ڈیزائن منسوخ کر دیا اور حکم جاری کیا کہ ایسی عمارت تعمیر کی جائے جس کی لاگت 14 لاکھ روپے سے زائد نہ ہو۔ اور اس کے لیے 7 لاکھ روپے کارپوریشن اور سات لاکھ روپے حکومت کی جانب سے مہیا کرنے کا اعلان کیا گیا۔

مینار پاکستان کی تعمیر کے لیے فنڈز کی دستیابی مستقل مسئلہ رہا حتیٰ کہ آرکیٹیکٹ مرات خان نے ڈیزائن کی فیس 25 ہزار 200 روپے بھی تعمیراتی فنڈز میں جمع کرادی اور مرات خان کا تعلق داغستان روس سے ہے یعنی روسی ماہر تعمیرات نے پاکستان کی یادگار کی تعمیر کا نقشہ بنایا، کیا پاکستان کے پاس کوئی ماہر تعمیرات ہی نہیں تھا؟

مینار پاکستان کی تعمیر شروع ہوئی تو پھول نما پتیوں کی اونچائی 30 فٹ تک پہنچی تو 14 لاکھ روپے خرچ ہوگئے۔ مرات خان نے گورنر کو آگاہ کیا تو گورنر ناراض ہوگئے۔ اب عطیات دینے والے تو تھے مگر اُن کا اصرار تھا کہ ان کے نام کی تختی بھی آویزاں کی جائے مگر مرات خان نے اس کی مخالفت کی۔

مینار پاکستان کی تعمیر کے لیے مغربی پاکستان اسمبلی میں فنڈز کے ایشو پر سوال اُٹھایا گیا، اس پر مباحثے کے بعد سینما کے ٹکٹوں پر 5 پیسے ٹیکس لگانے کا فیصلہ ہوا آخر کار پیسے جمع ہوئے اور مینار کی تعمیر 75 لاکھ روپے میں 31 اکتوبر 1968ء کو مکمل ہوئی پھر 23 مارچ 1969ء کو مینار پاکستان عوام کے لیے بغیر افتتاح کے کھول دیا گیا۔

ناقدین تو یہاں تک اعتراضات اُٹھاتے ہیں کہ کیا مینار پاکستان ہماری سیاسی، سماجی، ثقافتی، تہذیبی شعائر کے نقشہ کےعین مطابق تعمیر کیا گیا؟

وہ قوم جس کے صاحب ثروت لوگوں نے اس لیے عطیات جات دینے سے انکار کر دیا کہ ان کا نام یادگار پر تحریر کیے جانے کا مطالبہ پورا نہ ہوسکتا تھا، وہ یادگار جس کی تعمیر کے لیے سینما کے ٹکٹوں پر پانچ پیسے کا ٹیکس لگانا پڑا، وہ یادگار جس کی تعمیر کے لیے گورنر نے مجوزہ تخمینہ جات 65 لاکھ سے کم کر کے 14 لاکھ کر دیے ہوں، اس یادگار کے آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن فیس لینے سے انکار کر دیا ہو کیونکہ وہ پاکستانی نیشنل نہیں تھا اس یاد گار کے افتتاح کے لیے صدر پاکستان محمد ایوب خان سے لے کر کمشنر لاہور تک لوگ خواہشمند رہے ہوں مگر تکمیل کے 48 سال بعد بھی اس کی رسم افتتاح نہ ہوسکی۔


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *