جمہور، آزادی رائے اور میڈیا کے معاشی مفادات کا ٹکراؤ

  • October 3, 2016 12:09 pm PST
taleemizavia single page

محمد اکرم سومرو

عہد حاضر کو جمہوریت کادور کہا جاتا ہے۔جمہوریت کے قیام، بقاءاور تسلسل کے لیے میڈیا کے کردار کو لازمی اور نا گزیر تصور کیا جاتا ہے۔ میڈیا کا سب سے اہم اور بنیادی کام حالات حاضرہ، سیاسی اور معاشی واقعات کی بر وقت اور صحیح تصویر معاشرے کے سامنے پیش کرنا ہے۔

دراصل جمہوری معاشروں میں حقیقت پر مبنی درست خبر انتہائی اہمیت کی حامل اس لیے ہوتی ہے کہ یہ فرد و معاشرہ دونوں کی حقییقت تک رسائی اور صحیح رائے قاہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

صحیح اور حقیقت پر مبنی رائے ہی جمہوری معاشرے کی ترقی کا باعث ہوتی ہے۔آج کے اس میڈیا اور انفارمیشن سوسائیٹی کے دور میں یہ امر انتہائی اہم ہےکہ میڈیا پر نشر ہونے والے واقعات کا میڈیا انڈسٹری کی حقیقت کے تناظر میں تجزیہ کیا جائے۔

رائے عامہ سے مراد ہوتا ہے کہ سماج کی اکثریت آبادی سے کسی موضوع پر رائے رکھتی ہے۔ جمہوریت کے تصور کے تناظر میں یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ عوامی رائے کی بنیاد پر جمہوری حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں۔

اور اگر جمہوریت کے بنیادی تصورات کے پس منظر میں دیکھاجائے تو عوامی رائے ہی حکومتی فیصلوں پر اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ عوامی رائے کا اصل ہدف معاشرے کے وہ طبقات ہوتے ہیں جو دراصل اس پوزیشن میں ہوں کہ جو واقعتا فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کر سکیں۔

ان میں سیاست دان، حکومتی اراکین، مذہبی رہنما، کاروباری طبقہ، معاشرے میں موجود تنظیمیں، عوامی و ادبی حلقے اور یونیورسٹیز و کالجز کے طلبہ و اساتذہ وغیرہ شامل ہیں۔

صحیح عوامی رائے کا دارومدار ان درست معلومات پر ہوتا ہے جو کسی مسئلہ (ایشو) پر رائے دینے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت تو سب پر واضح ہے کہ کوئی بھی فرد تن تنہا اہم سیاسی ، معاشی ، ملکی اور غیر ملکی معاملات پر موجو د معلومات تک براہ راست رسائی نہیں رکھتا ہے اسی لیے وہ ان معلوما ت کے حصول کے لیے لا محالہ میڈیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

میڈیا پروفیشنل افراد پر مبنی ایک ایسا ادارہ ہوتا ہے جو عوامی مفادات کے ایشوز پر موجود حقاق کو جمع کرنے کے بعد عوام کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ عوامی حلقے ایک صحیح رائے قائم کر سکیں۔

میڈیا کا بنیادی کردار یہی ہے کہ وہ عوامی دلچسپی ومفاد کے حامل مسائل اور ایشوز پر معلومات کا تبادلہ کرے۔

جمہوری معاشروں میں میڈیا کی آزاد حیثیت سے کام کرنے کے پس پردہ بھی یہی نظریہ کارفرما ہے۔

مزید پڑھیں: میڈیا لیٹریسی: میڈیا کا کاروباری چکراورعوام

چونکہ جمہوری سماج کا تصور ہے کہ عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے ہوتی ہے۔ لہذا اس حکومت کا مقصد بھی عوامی خدمت اور قومی مفادات کی نگرانی کرتے ہوئے ریاست کو چلانا ہے۔

عوامی ووٹوں سے بننے والی حکومت اور حکومتی فیصلوں کے قومی مفادات پر مرتب ہونے والے اثرات پر نظر رکھنا میڈیا کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

میڈیا تھیوریز میں اس تصور کو میڈیا کا واچ ڈوگ کا کردار کہا جاتا ہے۔

اگر میڈیا ملکی مفادات کے تناظر میں خبریں اور تجزیے عوام تک پہنچائے تو عوامی حلقوں میں حکومتی فیصلوں پر تنقید یا تائید کرنے سے متعلق درست رائے قائم ہوتی ہے۔

لیکن اگر قومی سطح پر میڈیا عوامی مسائل اور ملکی مفاد پر سیاسی جماعتوں کے مفادات کے پیش نظر کام کرے تو اسے میڈیا کا لیپ ڈوگ کردار کہا جاتا ہے۔

اب میڈیا کی معلومات پر انحصار کرنے والے افراد ایسی صورت میں میڈیا کے پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔

میڈیا کسی معاشرے میں صحیح ، سچی اور مکمل معلومات فراہم کر سکتا ہے یا نہیں اس کا دارومدار دو بنیادی اُصولوں پر ہے۔

اول یہ کہ جس ملک کے میڈیا سے متعلق تجزیہ کرنا مقصود ہے اس ملک کے معاشی نظام کے ڈھانچہ کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے۔

دوئم یہ کہ اس ملک کے سیاسی نظام کا ڈھانچہ کس نوعیت کا ہے اور یہ کن اُصولوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔

پاکستان میں میڈیا اب سماجی ادارہ ہونے سے زیادہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گیا ہے جس پر خود میڈیا سے وابستہ افراد کو بھی فخر ہے۔

انڈسٹری کے تصورات کے برعکس اس انڈسٹری کے خدوخال قدرے مختلف ہیں۔

میڈیاانڈسٹری میں نہ تو سامان کی خرید و فروخت ہوتی ہے اور نہ ہی خدمات کی بلکہ میڈیا معلومات، نظریات، تجزیات، ثقافت اور تہذیب کو مارکیٹ میں فروخت کرنا ہے۔

میڈیاانڈسٹری اور باقی تمام ماندہ انڈسٹری میں صرف ایک قدر مشترک ہے یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کمانا۔

اسی لیے میڈیا مالکان اور میڈیا ملازمین ایسا کوئی کام نہیں کرتے ہیں جس سے کسی بھی طرح سے منافع کے حصول کا عمل متاثر ہو۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے ہندوؤں کی تعلیمی پسماندگی، ریاست خاموش کیوں؟

یہ منافع اشتہاروں سے حاصل ہوتا ہے اور اشتہار وں کا سب سے بڑا ذریعہ حکومتی ادارے اور بڑی بڑی ملکی و غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔

اس لیے یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ میڈیا کی آمدن اور منافع براہ راست حکومت اور ملٹی نیشنل کمپنوں سے جڑا ہوا ہے۔

اس لیے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر حقیقت میں ایسی کوئی خبر یا پروگرام نشر ہی نہیں ہوتا ہے جو ان کمپنیوں کے خلاف ہو۔

یہ کمپنیاں جو سالانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا کاروبار ایک ملک میں کرتی ہیں ان میں اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ میڈیا کے اشتہارات بند کر کے مالی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

پاکستان سمیت تمام جمہوری ملکوں میں آزاد میڈیا کے حق میں آواز اُٹھائی جاتی ہے بلکہ ان ممالک کے صدور، وزراء اعظم مسلسل میڈیا کی آزادی کے بیانات بھی جاری کرتے ہیں کہ وہ میڈیا کی آزادی کے زبردست حامی ہیں۔

ان بیانات کا بنیادی مقصد صرف یہی ہوتا ہے ہے کہ میڈیا پر عوامی انحصار کو بڑھایا جائے۔

پاکستان میں پرنٹ میڈیا کی عمر تو زیادہ ہے لیکن برقی میڈیا یعنی الیکڑانک میڈیا ابھی بالغ بھی نہیں ہوا۔

میڈیا کی نشریات میں عوام کو ایمان کی حد تک یقین دلایا جاتا ہے کہ آزاد میڈیا کے بغیر نہ تو جمہوریت مکمل ہے اور نہ ہی عوامی و قومی مسائل کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں صنعتوں کی طرح میڈیا بھی منافع کے اُصول کے تحت کام کرتا ہے اور اس عمل کے دوران میڈیا سرمایہ داروں اور مالی طاقت رکھنے والوں کا محافظ ہوتا ہے۔

پاکستان میں تمام اخبارات اور قومی نشریاتی اداروں پر نشر ہونے والی معلومات، خبروں، تجزیوں حتیٰ کہ تفریح پروگرامز کا انہی اُصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے تو معاشی طور پر استحصال کرنے والی کمپنیوں اور سرمایہ دارانہ سوچ پر کوئی ضرب نہیں لگائی جاتی۔

اگر کسی پروگرام، کالم، یا خبر میں ذکر ہو بھی جائے تو اس کا اثر زائل کر دیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ میڈیا ان گروہوں کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتا۔ ملک میں موجود لینڈ مافیا، قبضہ گروپس، صنعت کار، پریشر گروپس، بینکس اور سرمائے کی بنیاد پر چلنے والے بڑے بڑے اداروں سے متعلق نہ تو کوئی مہم چلائی جاتی ہے اور نہ ہی حکومت ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرتی ہے۔

اخبارات اور ٹیلی ویژن میں جو مباحثے پیش کیے جاتے ہیں وہ ایک ایجنڈے کے تحت ہوتے ہیں اس میں سیاسی مسائل پر بحث تو ہوتی ہے، حکومتی کرپشن کے قصے کہانیاں بھی بیان ہوتے ہیں۔ جھگڑے بھی ہوتے ہیں اور انتہائی تحقیق پر مبنی رپورٹس بھی شامل ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود عام آدمی کے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے۔

سرمایہ داریت کے اُصول پر جس میڈیا کی پوری عمارت کھڑی ہے اس میں طاقت ور کی ہمیشہ جیت ہوتی ہے جس کی بہترین مثال پاکستان میں کام کرنے والی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں جو مزدور اور محنت کش کا استحصال کرتی ہیں لیکن ہمیں کوئی خبر سننے اور پڑھنے کو نہیں ملتی۔

پاکستان کا میڈیا اگر واچ ڈوگ کا حقیقی انداز میں کردار نبھا رہا ہوتا تو قومی سطح پر عوام کے بنیادی مسائل کا تدارک کرنے میں مدد مل رہی ہوتی اور روزانہ رات کو ٹاک شوز میں نئے نئے انقلابی دعوؤں کی جگہ عوامی مفاد کے تحفظ کی بات کی تکرار ہوتی۔


akram-soomro-2

محمد اکرم سومرو میڈیا اسٹڈیز کے اُستاد ہیں وہ آج کل لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز میں تعینات ہیں۔ اس سے پہلے وہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ایف سی کالج لاہور میں پڑھا چکے ہیں۔ میڈیا پر شعوری تنقید کے ذریعے طلباء کو پڑھانا ان کا شوق ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *