داعش کی تربیت یافتہ ایم بی بی ایس کی طالبہ لاہور سے گرفتار
- April 16, 2017 8:02 pm PST
مانیٹرنگ ڈیسک
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قانون نافذ کرنے والوں کی کارروائی کے دوران حراست میں لی جانے والی لڑکی کی شناخت نورین لغاری کے نام سے ہوگئی۔
نورین جبار لغاری کے بھائی محمد افضل لغاری نے میڈیا سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق کی کہ لاہور سے حراست میں لی جانے والی لڑکی اس کی بہن نورین ہی ہے۔
افضل نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ اس کی بہن 10 فروری 2017 کو لاپتہ ہوگئی تھی جس کی اطلاع انہوں نے پولیس کو دے دی تھی۔
افضل کا مزید کہنا تھا کہ ‘پولیس نے تقریباً 6 روز بعد بتایا کہ لڑکی شدت پسند تنظیم داعش کی طرف چلی گئی ہے لیکن پہلے ہم نے اس بات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا کیوں کہ اس پر یقین کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ یا ثبوت نہیں تھا’۔
دوسری جانب نورین جبار لغاری کے والد پروفیسر عبدالجبار لغاری کا کہنا ہے کہ ان سے پولیس یا کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے باضابطہ طور پر رابطہ نہیں کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جمعے کی شب لاہور کے فیکٹری ایریا میں چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئے ایک مشتبہ دہشت گرد کو ہلاک اور اس کی اہلیہ اور ایک ساتھی کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاک فوج کے شبعہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ہلاک ہونے والا دہشت گرد اور اس کے ساتھی شہر میں ایسٹر کے تہوار کے دوران حملوں کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کی شناخت علی طارق کے نام سے ہوئی جبکہ اس کے گھر سے دو خود کش جیکٹس اور 4 دستی بم بھی برآمد ہوئے۔
ہفتے کے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پراپرٹی ڈیلر ایوب اور گھر کے مالک عظیم کو تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔ پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ سی ٹی ڈی اور خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے جمعے کی شب تقریباً 10 بجے کے قریب پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں سرچ آپریشن شروع کیا۔
اسی دوران علاقے کے ایک گھر سے چھاپہ مار ٹیم پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد جوابی فائرنگ کی گئی اور انکاؤنٹر شروع ہوگیا۔ جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چھاپہ مار ٹیم گھر کے اندر داخل ہوئی اور 32 سالہ علی طارق کو مردہ پایا جو کہ بنیادی طور پر بیدیاں روڈ کا رہائشی تھا۔
ترجمان نے مزید بتایا تھا کہ ٹیم نے گھر سے ایک خاتون اور ایک شخص کو بھی حراست میں لیا جبکہ طارق کے دو سے تین ساتھی اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
بعد ازاں سی ٹی ڈی ذرائع نے بتایا تھا کہ حراست میں لی جانے والی خاتون کی شناخت نورین لغاری کے نام سے ہوئی ہے جو کہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشورو کی طالبہ ہے۔
سی ٹی ڈی ذرائع کے مطابق چند ماہ قبل نورین شدت پسند تنظیم داعش میں شمولیت کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی اور بعد ازاں لاہور واپس آکر اس نے طارق سے شادی کرلی تھی۔ اس آپریشن کے دوران نورین لغاری سے سٹوڈنٹ کارڈ اور والد کے شناختی کارڈ کی کاپی بھی ملی ہے۔
ذرائع کے مطابق چھاپے کے دوران نورین نے بھی انکاؤنٹر میں حصہ لیا اور پولیس اہلکاروں سے تقریباً ایک گھنٹے تک مقابلہ کرتی رہی۔ سی ٹی ڈی نے تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت واقعے کا مقدمہ درج کرکے مزید تحقیقات شروع کردی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران حساس ادارے کے افسر سمیت چار اہلکار زخمی بھی ہوئے جبکہ تفتیشی ٹیموں نے سندھ میں پڑھی لکھی خواتین کو دہشت گردی سے منسلک کرنے والے گروہ کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لی ہیں۔
خیال رہے کہ نورین لغاری کی گمشدگی کے بعد جامشورو میں سول سوسائٹی کی جانب سے مظاہرے بھی کیے گئے تھے تاہم پولیس نورین لغاری سے متعلق ٹھوس معلومات جمع نہیں کر سکی تھی۔