طلباء مایوس ذہن سے کیسے چھٹکارا حاصل کریں
- December 3, 2017 11:42 am PST
شاداب مرتضی
گزشتہ دنوں نسٹ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نوجوان اعزاز علی نے بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کر لی تھی۔ اس افسوسناک واقعے نے ہر حساس دل کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ مذہبی رجحان رکھنے والے افراد چونکہ خود کشی کو حرام سمجھتے ہیں (حالانکہ خود کشی کرنے والے کے نزدیک یہی واحد راستہ ہوتا ہے) اس لیے انہوں نے اس افسوسناک واقعے کی ذمہ داری کو اعزاز علی کی مذہب سے مایوسی پر محمول کر کے خود اعزاز کو ہی اس کی خودکشی کا ذمہ دار قرار دے کر اپنا مذہبی فریضہ ادا کر دیا۔
دوسری جانب اعزاز کی خود کشی سے خود کشی کے معاملے پر ایک نکتہ نظر یہ سامنے آیا ہے کہ اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں طالبِ علموں کو اسٹریس مینجمنٹ کی لازمی تعلیم دی جائے تو وہ بیروزگاری سے پیدا ہونے والے مایوس کن ذہنی دباؤ سے تنگ آکر خود کشی نہیں کریں گے بلکہ بیروزگاری کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے خود کو نارمل اور زندہ رکھنے میں کامیاب رہیں گے۔
صاف ظاہر ہے کہ اس “امپورٹڈ جدید تھیوری” کے نزدیک بیروزگاری اور مناسب روزگار کی عدم موجودگی نہیں بلکہ یہ ذہنی دباؤ ہوتا ہے جو خود کشی کا محرک ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے ذہنی دباؤ پر کنٹرول کرنا سیکھ لے تو وہ بیروزگاری یا مناسب روزگار کی عدم دستیابی سے تنگ آکر خود کشی نہیں کرے گا۔
اس تھیوری کے مطابق، جو کہ مینجمنٹ سائنس کے نام پر اکنامکس اور انسٹیٹیوشنل مینجمنٹ کے تعلیمی اور عملی اداروں میں پھیلی ہوئی ہے، یہ دراصل بیروزگاری کے حالات نہیں ہیں جن سے وہ ذہنی دباؤ پیدا ہوتا ہے جو انسان کو خود کشی کی جانب لے جاتا ہے۔ زہنی دباؤ کا انسان کے خارج میں موجود اس کی حقیقی دنیا کے سماجی حالات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
انسان کے سماجی حالات اس کے جذبات و احساسات اور فکر و تعقل کو الغرض اس کے شعور کو متاثر نہیں کرتے بلکہ انسان کا دماغ سماجی حالات سے متاثر ہوئے بغیر صرف اپنے تئیں خود انسان میں جذبات و احساسات اور دیگر شعوری صفتیں پیدا کرتا ہے۔ اس لیے اگر صرف ذہنی دباؤ کو اپنی مرضی و منشاء کا مطیع کر لیا جائے اور بیروزگاری اور نامناسب حالات بھلے ہی موجود رہیں تب بھی بیروزگاری کے حالات سے پیدا ہونے والا ذہنی دباؤ انسان پر اثرانداز نہیں ہو سکے گا اور اسے خود کشی پر مجبور نہیں کر سکے گا۔
کچھ اسی قسم کی “تھیوریز” ہمارے یہاں جدید تصوف کے نام پر بھی پھیلی ہوئی ہیں جن کے مطابق اگر انسان اپنے باطن کو، اپنی داخلیت کو، اپنے ذہن اور سوچ کو خارجی حالات سے، سماجی حالات سے متاثر ہونے سے باز رکھے تو وہ خوش، مطمئن اور کامیاب زندگی بسر کر سکتا ہے۔ ان تصورات کا منطقی نتیجہ فرد کی سماجی بیگانگی کی مختلف صورتوں میں سامنے آتا ہے کیونکہ ایسے خیالات کا اس سماج میں، سرمایہ دارانہ سماج میں، پیدا ہونا منطقی ہے جہاں فرد کی سماج سے بیگانگی وجودیت کی پہلی شرط ہے۔
اس طرز کی نام نہاد “سائنسی” تھیوریوں کی بنیاد مابعدالطبعیاتی طرزِ فکر میں پیوست ہے۔ مثلا بیروزگاری سے پیدا ہونے والے ذہنی دباؤ کے تحت خود کشی کو روکنے کے لیے بیروزگاری کو قائم رکھنا لیکن ذہنی دباؤ کو کنٹرول میں لانا ایک ایسی تھیوری ہے جس کی صحت کی تصدیق کے لیے اس کا موازنہ ایسی صورتحال سے کیا جا سکتا ہے جس میں انسان کو سخت سردی لگ رہی ہو لیکن خود کو سردی سے بچانے کے لیے اس کے پاس کوئی چیز نہ ہو۔
اس صورتحال میں انسان کو چاہیے کہ وہ سردی کے نتیجے میں اور سردی سے نہ بچ پانے کی وجہ سے ذہن میں پیدا ہونے والے دباؤ کو اگر کنٹرول کر لے اور اپنے ذہن کو یعنی خود کو یہ یقین دلا دے کہ سردی حقیقت میں موجود نہیں اور نہ اسے متاثر کر رہی ہے بلکہ یہ تو بس اس کی سوچ ہے کہ سردی موجود ہے اور اسے سردی لگ رہی ہے تو انسان سردی سے اور سردی
سے مرنے سے بچ سکتا ہے! لبرل فلسفہ اور سائنس اس قسم کی مابعد الطبعیاتی تھیوریز سے اٹے پڑے ہیں۔
یوں لگتا ہے گویا اعزاز علی نے خود کو خودکشی سے روکنے کے لیے اور زندہ رہنے کے لیے آخر تک خود سے جنگ نہیں کی ہوگی۔ اس نے اپنے ذہنی دباؤ کو کنٹرول کرنے کی اور خود کو خود کشی سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کی ہو گی! کون سا انسان اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے اپنی خوشی سے ختم کرے گا؟ کون سا شخص اپنے آپ کو خود کشی سے روکنے کے لیے آخری حد تک نہ جائے گا؟
سائیکالوجیکل یا سائیکاٹرک تھیوریز کو سوشل مینجمنٹ، اکنامک مینجمنٹ، ریسورس مینجمنٹ اور اسی طرح اینگر، پریشر یا اسٹریس مینجمنٹ کے لیے استعمال کر کے فرد کے لیے بیروزگاری سے پیدا ہونے والے تباہ کن نفسیاتی اور سماجی حالات کا ازالہ کرنا لبرل مینجمنٹ سائنس کا ایک عالمانہ فریب ہے۔ انسان کا ذہن اور اس کی سوچ اس کے حالات سے متعین ہوتی ہے اور اس کے سماجی حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
بیروزگاری انسانی ذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ انسان کے ذہن کی حدود سے باہر موجود اس کی خارجی سماجی دنیا میں موجود ایک بدنما اور وسیع سماجی حقیقت ہے جو ہر بیروزگار انسان کو اور حتی کہ برسرِ روزگار انسان کے ذہن کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اگر بیروزگاری موجود نہ ہوتی تو وہ زہنی دباؤ بھی وجود میں نہیں آتا جو انسان کو بیروزگاری سے تنگ آکر خود کشی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایسی خود کشیوں کو ختم کرنے کا نسخہ اسٹریس مینجمنٹ کے “وعظ” نہیں بلکہ بیروزگاری کی سماجی لعنت کو مکمل ختم کرنے میں ہے۔
ہماری تعلیمی پالیسی کا ایک اہم نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ طلباء کو سماجی مسائل کے درست اسباب اور ان کے حل کے درست طریقے سکھائے جائیں بجائے یہ کہ پرفریب لبرل سائنسی تصورات کے ذریعے ان کے ذہنوں میں غلط سماجی نظریات و خیالات راسخ کیے جائیں۔
ہمیں طلباء کو یہ تعلیم دینی چاہیے کہ وہ غیر سائنسی اور انسان دشمن نظریات کو قبول کر کے بیروزگاری کو یا ملازمت کے غیرمنصفانہ حالات کو برداشت کرنے کی اپنے آپ میں عادت پیدا کرنے کے بجائے اور اس طرح خود کو سرمایہ دار طبقے کا مطیع اور فرمانبردار نوکر بنانے کے بجائے سماج میں موجود استحصالی حالات کے اسباب و علل کو صحیح طرح سمجھیں اور پھر ان کے خاتمے کی جانب درست انداز سے قدم اٹھائیں۔
لکھاری کا تعلق سندھ سے ہے وہ سماجی ایشوز پر آواز اُٹھانا اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔