لاہور کی ادبی شناخت گُم ہونے کا خطرہ
- March 30, 2018 11:55 am PST
محمد بشارت
جمہوریت کے نام پر بننے والی سیاسی حکومتوں نے اپنی سیاسی مہم میں تعلیم اور صحت کے نام کا چورن خوب مارکیٹنگ کر کے بیچا ہے۔
پاکستان کو عظیم تر بنانے سے لیکر غربت ختم کرنے کے دعوؤں تک سبھی اس چورن کا حصہ ہوتے ہیں ، جمہوریت کی بانگ دینے والوں نے اس دھرتی کے ساتھ وہی کچھ کیا جو آمریت کرتی رہی۔
لاہور کو ادب کا شہر قائم رکھنے کی بجائے اسے پرائیویٹ رہائشی منصوبوںکا مرکز بنا چھوڑا ہے۔ صبح و شام ٹیلی ویژن پر اپنی زیارت کراتے حکمران روزانہ کوئی نیا بھاشن دیتے ہیں اور یوں اقتدار کے پانچ سال پورے ہوجاتے ہیں۔
اخباری بیانات اور دفتری ملاقاتوں سے آگے کچھ نہیں بڑھتا گویا تعلیم اور صحت کی بربادی بھی خود کرتے ہیں اور اسے ترقی دینے کے منصوبے بھی خود ہی بناتے ہیں۔
عوام کی فلاح کا کام کرنے کی بجائے میڈیا بیانات جاری کرنا زیادہ ضروری گردانتے ہیں چاہے حزب اقتدار والے ہوں یا پھر حزب اختلاف والے دونوں نے عوام کو کاک ٹیل بنا رکھا ہے۔
لاہور کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟اس کی ادبی شناخت کھو رہی ہے شاید حکومت کو اس کا احساس بھی نہیں، حزب اقتدارو حزب مخالفین چٹ پٹے بیانات دیکر میڈیا کو روزانہ نئی زندگی بخش دیتے ہیں یوں شب و روز گزر جاتے ہیں۔
ریاست کی علم کے ساتھ بیزاری پر بے شمار دلائل موجود ہیں تاہم اس کے باوجود انفرادی طور پر علم دوست لوگ ادبی بیٹھک لگا لیتے ہیں۔
لیکن حکومت نے تو کئی دہائیوں سے لاہور کو ادبی مرکز فراہم ہی نہیں کیا۔ بڑے شہروں کی پہچان روشن سڑکیں نہیں ہوتیں بلکہ یہاں پر معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی محفلیں ہوتی ہیں۔
یہاں کے مکتب خانے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف لاہور کو پیرس بنانا چاہتے ہیں
اور ان کے نزدیک پیرس سڑکوں ، انڈرپاسز یا پھررات کو دن کا منظر پیش کرتی لاہور کی سڑکیں ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پیرس میں علمی مراکز کتنے ہیں؟
نیا علم تخلیق کرنے کے حکومتی منصوبہ کیا ہیں؟ یا پھر کتنے بڑے بڑے مکتب خانے اور یونیورسٹیاں ہیں یہ سب کچھ ان کی نظر وں سے اوجھل ہے۔
کیونکہ وہ صرف بتیاں دیکھنے کے ہی شوقین ہیں اور اسی کو ہی شہر کی ترقی کا معیار مانتے ہیں۔
تخت لاہور کے موجودہ وارث لاہور شہر کی حقیقی پہچان کو مسخ کرنے کے خفیہ مشن پر ہیں۔مکتب خانے یا لائبریری شہری زندگی کا اہم جزو ہوتی ہے۔
ریاست کی لاپرواہی اور علم بیزار رویے کا براہ راست اثر لاہور کے باسیوں پر ہوا ہے۔
کتب بینی کا شوق محدود ہوتا جارہا ہے، کتابوں کی دکانوں پر کوئی ڈھونڈنے کو نہیں ملتا جب کہ انفرادی سطح پر لاہوریوں کا یہ رویہ ہے کہ وہ کھابوں کی دکانوں پر گھنٹوں انتظار کرنے پر بیزار نہیں ہوتے۔
شاید لاہوریوں کا یہی شوق دیکھ کر لاہور کے موجودہ بادشاہ کی ذاتی دلچسپی کی بناءپر اندرون لاہور میں پانچ سو میٹر کی جگہ پر کروڑوں روپے خرچ کر کے فوڈ سٹریٹ بنا دی جاتی ہے۔
وہاں پر جگمگ کرتے روشنی کے فوارے اور کلاسیکل موسیقی کا سامان بھی مہیا کیا گیا لیکن خادم اعلیٰ کو یہ بھول گیا کہ اُنہوں نے لاہور میں ایک کلو میٹر کی جگہ پر بک سٹریٹ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور علم کا ذوق رکھنے والوں کے دل باغ باغ ہوگئے تھے۔
لیکن کیا معلوم تھا کہ پنجاب حکومت 8سال تک مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود اپنے ہی وعدے کو وفا نہیں کر سکی۔
اہل علم کے ساتھ جھوٹا وعدہ ہوا اور پھر اُسے پورا نہ کرنے پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہے جس کا مصداق یہی ہے کہ دل کو بھیلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے(تھا)۔
ذرا لاہور کے مکتب خانوں کی تصویر کشی کر لیتے ہیں۔ لارنس گارڈن (باغ جناح) میں قائد اعظم لائبریری ، پنجاب پبلک لائبریری، دیال سنگھ لائبریری، دارالسلام لائبریری یا پھر ماڈل ٹاؤن لائبریری صرف یہی پانچ بڑے مکتب خانے ہیں۔
لیکن اس میں سے سوائے قائد اعظم لائبریری کے باقی تمام کی حالت تو علم کے متلاشیوں سے پوچھ لی جائے تو اچھا ہے۔
حکومت کی توجہ ہی جب لوہے کی کھپت پر ہوگی تو کتابوں میں لکھے الفاظ اور ان میں لکھے فلسفے، داستانیں، سائنس، ٹیکنالوجی، ادب یا پھر تاریخ سے جڑے واقعات سے حکمرانوں کو کیا سروکار ہوگا؟
لاہور میں چار دہائیوں سے نیا مکتب خانے کا نہ بننا علمی جمود کا واضع ثبوت ہے ویسے بھی تین دہائیوں سے لاہور میں کم و بیش ایک ہی خاندان کی حکومت ہے۔
لاہوریوں کو ایک بار نہیں بار بار علم کے نام پر دھوکہ دیا گیا ہے۔جی او آر ون یعنی ریس کورس کے علاقے میں بیوروکریٹس کے سرکاری گھروں کے بیچ میں بنے وزیر اعلیٰ ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا دعویٰ ہو یا پھر گورنر ہاؤس کو لائبریری میں بدلنے کا وعدہ یہ سب قصہ پارینہ ہوگیا۔
نواز لیگ کے سلطان یعنی بیوروکریٹس نے تو ہمیشہ علم دُشمنی کامظاہرہ کیا ہے سیکرٹیریٹ میں موجود سرکاری آرکائیوجو کم و بیش ایک سو پچاس سال کے عرصے پر محیط ہے۔
یہاں تک علم کی جستجو رکھنے والوں کو رسائی تک نہیں ہوتی حتیٰ کہ اس بیورورکریسی نے آرکائیو میں پڑی سرکاری دستاویزات کو بوریوں میں بند کر کے تہہ خانے میں رکھ چھوڑا ہے۔
علم سے بیزاری یا پھر انفرادی سطح پر جو رویے تشکیل پاتے ہیں اُس میں ریاست کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
جدید لاہور میں جتنے بھی علاقے موجود ہیں وہاں پر صرف ایک لائبریری یعنی ماڈل ٹاؤن لائبریری کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ معاشی طور پر خوشحال یہاں کے باسیوں کو بھی علم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
سماج میں موجود رجعت پسندی یا پھر ذہنی پسماندگی کو شکست دینے کے لیے کالجوں کے باہر سیکورٹی گارڈز لگانا ہی کافی نہیں ہے۔
لاہور کی ناگفتہ بہ حالت تو یہ ہے کہ یہاں کے 12سو سے زائد سرکاری سکولوں میں ایک بھی لائبریری موجود نہیں ہے بلکہ حکومت سے تو ان سکولوں میں بچوں کے لیے کلاس رومز ہی پورے نہیں ہورہے۔
سونے پر سہاگہ یہ لاہور میں بچوں کے لیے صرف ایک چلڈرن لائبریری ہے شاید بچوں کے لیے نئے مکتب خانے بنانے کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں کیونکہ سارے فنڈز تو لوہا، سیمنٹ، بجری کی خریداری پر ہی وقف ہیں۔
جب سماج میں ادبی سرگرمیوں کے مراکز ہی نہیں ہوں گے، جب سماج میں مباحثے ہی نہیں ہوں گے تو پھر دلیل کہاں سے آئے گی؟
پھر اذہان علمی طور پر کیسے ترقی کریں گے، شعور کیسے آئے گا؟
اگر شعور صرف اخبار پڑھنے یا ٹیلی ویژن پر تجزیے سننے سے آتا تو تین دہائیوں سے لاہور میں صرف ایک ہی خاندان کی حکومت نہ ہوتی کیونکہ پھر ووٹ دینے کا رجحان بھی بدل جاتا۔
جس تعلیم کی ترقی کا نعرہ اور دعویٰ سیاسی مہم میں کیا جاتا ہے وہ صرف اپنی تقریروں میں چاشنی پیدا کرنے کی غرض سے ہوتے ہیں۔
وگرنہ لاہور میں مکتب خانے بھی بنتے، پہلے سے موجود مکتب خانوں کے فنڈز بھی بڑھتے، سہولیات بھی بڑھتی اور ریاست علم کی تخلیق کی سرپرستی بھی کرتی۔
انفرادی سطح پر لوگوں کے مزاج کو بدلنے اور انہیں علم کی جستجو کی طرف راغب کرنے کے لیے ریاست کو بھی اقدام اُٹھانا ہوگا۔
اگر کچھ نہ کیا گیا تو مال روڈ پر زمین پر رکھی پھٹی پرانی کتابیں وہاں سے گزرنے والوں کو منہ چڑاتی رہیں گی اور کسی کو ذرہ برابر بھی احساس ندامت نہیں ہوگا۔