پشاور کی فرانزک لیبارٹری چار سال سے کیوں بند پڑی ہے؟
- February 1, 2018 4:34 pm PST
پشاور
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جنسی زیادتی اور دیگر جرائم کی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی ڈی این اے ٹیسٹنگ لیبارٹری کو قائم ہوئے تین سال ہو چکے ہیں لیکن حکومتی عدم دلچسپی کے باعث یہ تاحال غیر فعال ہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف فورینزک میڈیسن اور ڈی این اے پروفائیلنگ کے نام سے موسوم یہ ادارہ خیبر میڈیکل کالج پشاور کے احاطے میں قائم کیا گیا ہے۔
تقریباً چار کروڑ روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی تین منزلہ عمارت اور جدید آلات پر مشتمل لیبارٹری کا قیام سنہ 2014 میں لایا گیا تھا لیکن ماہرین کی تعیناتی میں تاخیر اور حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث یہ لیبارٹری ابھی تک اپنے کام کا باقاعدہ آغاز نہیں کر سکی ہے۔
لیبارٹری کے تمام سیکشنز میں صرف ایک خاتون اہلکار نظر آئی جبکہ بیشتر کمروں میں جدید آلات بھی دکھائی دیے۔
لیبارٹری کے ساتھ ایک مردہ خانہ بھی قائم ہے جہاں ایک ہی وقت میں 70 کے قریب لاشیں رکھی جا سکتی ہیں۔ یہ مردہ خانہ خیبر پختونخوا اور پشاور میں دہشت گردی کی کاروائیوں سے ہونے والے جانی نقصانات سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
لیبارٹری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی نے تسلیم کیا کہ کچھ تکینکی وجوہات کی وجہ سے ڈی این اے ٹیسٹنگ لیبارٹری بروقت اپنا کام شروع نہیں کرسکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ لیبارٹری کے قیام کے فوراً بعد چند ڈاکٹری تنظیموں کی جانب سے یہاں ہونے والی تعیناتیوں کو عدالت میں چیلنج کیا گیا جس کی وجہ سے دو سال تک ماہرین کی تعیناتی میں تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے ابھی تک کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حکیم خان آفریدی نے کہا کہ اب تمام مسائل حل ہو چکے ہیں اور امید ہے کہ آئندہ دو ہفتوں تک یہاں باقاعدہ کام کا آغاز ہو جائے گا۔ان کے مطابق حکومت کی جانب سے ڈی این اے کٹس کی خریداری کے لیے 50 لاکھ روپے کی رقم فراہم کی گئی جس میں آدھی رقم ایک فرم کو پہلے ہی جاری کر دی گئی ہے جس سے 200 کٹس خریدی جا رہی ہیں۔
جونہی ہمیں ڈی این کٹسں موصول ہوتی ہیں اس کے دوسرے دن ہی یہاں باقاعدہ کام کا آغاز ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ یہاں صرف ڈی این اے ٹیسٹنگ نہیں ہوتی بلکہ زہرخوانی کے واقعات کی تحقیق اور پوسٹ مارٹم کے ساتھ ساتھ یہاں طلبہ کو تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں جنسی زیادتی اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوامی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ اس صوبے میں سائنسی بنیادوں پر جرائم کی تحقیقات کیوں نہیں ہو سکتیں؟
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مردان میں دو ہفتے قبل جنسی زیادتی اور قتل کا نشانہ بننے والی چار سالہ بچی اسما کا ڈی اے این ٹیسٹ کرانے کے لیے ان کے جسم کے نمونے پنجاب کے فورینزک اینڈ سائنس لیبارٹری بھجوائے گئے تاہم ابھی تک اس کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔
ڈاکٹر حکیم خان آفریدی نے مزید کہا کہ پشاور کی فرانزک لیب لاہور کی سائنس لیبارٹری سے کسی صورت میں سہولیات میں کم نہیں بلکہ تمام ماہرین اور سہولیات یہاں بھی موجود ہیں تاہم ان کی عمارت بڑی ہے اور ان کی لیب 11 سال پہلے قائم ہو چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر یہاں کی لیبارٹری فعال ہوتی تو نہ صرف مردان کی اسما کا ٹیسٹ یہاں ہوتا بلکہ اس کی رپورٹ بھی جلدی آ جاتی۔
بشکریہ بی بی سی اُردو