پختونخوا کے گرلز سکول میں طالبانائزیشن یا پھر فیمنیزم؟
- November 4, 2018 12:55 pm PST
پشاور: گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی صوبے بھر کے تمام زنانہ اسکولوں میں مردوں کا داخلہ ممنوع قرار دینے کی ہدایت پر ملک بھر سے لوگوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے اسی فیصلے کی مناسبت سے ردعمل دیتے ہوئے سماجی کارکن ضیاالدین یوسفزئی نے ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ’’معزز وزیراعظم صاحب، آپ کا یہ فیصلہ طالبانائیزیشن کو قومی دھارے میں لانے کے مترادف ہے۔ کیا یہی وہ ’نیا پاکستان‘ اور ’انقلاب‘ ہے جس کے بارے میں پی ٹی آئی رہنما اپنی تقاریر میں دعوے کرتے تھے۔‘‘
ایک خاتون کا اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ “سوشل میڈیا یا دیگر میڈیا چینلز پر اسکول طالبات کی تقریبات کی کوریج نہ ہونا افسوفناک ہے۔ کیا یہی “نیا پاکستان‘‘ ہے جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ کیونکہ اس سے قبل میں ہم اس بات سے آگاہ رہتے تھے کہ تعلیم نسواں سے منسلک صوبے میں کیا سرگرمیاں ہو رہی ہیں تاہم اب اس فیصلے کے بعد یہ ممکن نہیں ہو پائے گا‘‘۔
کچھ لوگوں نے اس نئے حکم کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہے اس لیے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ نیا پاکستان ہو یا پرانا پاکستان ایک مسلمان اس جاری کردہ ہدایت کو کبھی رد نہیں کرے گا۔خواتین کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے یہ ایک عظیم قدم ہے۔ صحافی اور سیاسترانوں کو بھی موجودہ حکومت کے اس حکم کی حمایت کرنا ہو گی۔
پاکستان تحریک انصاف کے کچھ حامیوں نے ٹوئیٹر پر اپنا موقف دیا کہ اس فیصلے سے ظاہر ہو چکا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اب ’مدینہ کی ریاست‘ کے اصولوں کی پیروی کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے اس فیصلے میں کچھ غلط نہیں ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم خیبرپختونخوا، ضیاء اللہ خان بنگش نے صوبے کے تمام گرلز اسکولوں بشمول خواتین اسپورٹس مقابلوں کی تقریبات میں مرد حضرات کی بطور مہمان خصوصی دعوت یا شرکت پر پابندی لگا دی تھی۔
جاری کردہ حکم نامے کے مطابق گرلز اسکولوں میں جتنی بھی تقریبات ہوں گی، اُن میں خواتین رکن صوبائی اسمبلی یا خواتین اعلیٰ افسران بطور مہمان خصوصی شرکت کریں گی۔
اس کے علاوہ گرلز اسکول کے کسی پروگرام کو سوشل میڈیا پر بھی مشتہر نہیں کیا جائے گا اور ساتھ ہی خواتین کے اسکولوں میں ہر قسم کی تقریبات کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
فیصلے کے بارے میں مشیر تعلیم کا موقف تھا کہ پابندی کا فیصلہ والدین کی شکایات اور صوبے کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی ہدایات پر کیا گیا ہے.