ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

  • March 31, 2021 3:01 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر جاوید لغاری

ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے پہلے چیئرپرسن ڈاکٹر عطا الرحمٰن کا شاندار عہد دیکھ چکا ہے، اس عظمت رفتہ سے گر کر آج ایچ ای سی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور یہ امر باعث پریشانی ہے کہ  جب میں نے 2013 میں ایچ ای سی کو چھوڑا تو اُس وقت یہ ایک ایسا ادارہ تھا جس پر پوری پاکستانی قوم کو فخر تھا۔

جب ہم نے ایک اصولی موقف اختیار کیا اور جب سپریم کورٹ کے ذریعہ تمام پارلیمنٹیرینز کی ڈگریوں کی تصدیق کرنے کے لئے کہا گیا اور اس سب کے باوجود ہم نے بیرونی دباو کا مقابلہ کیا اور اصولی موقف پر ڈٹے رہے اور ہمارے ڈٹے رہنے کی سزا یہ دی گئی کہ ایچ ای سی کو بجٹ میں 40 فیصد کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا اور 18 ویں ترمیم کے تحت انہدام، جسے سپریم کورٹ نے روک دیا۔

ان نامساعد حالات کے باوجود پاکستانی اعلی تعلیمی سیکٹر نے بھر پور کارگردگی کا مظاہرہ کیا جسے بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا پاکستانی یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی 2009 میں کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگ کے مطابق ایشیا کی ٹاپ 250 یونیورسٹیوں میں شامل یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے جبکہ 2013 تک یہ 10 جامعات ہیں! بدقسمتی سے، میرے ایچ ای سی چھوڑنے کے بعد مالی اعانت میں نمایاں اضافے کے باوجود 2021 کی درجہ بندی میں یہ تعداد ایک جیسی ہی رہ ہی ہے۔

ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ایچ ای سی کے کامیاب ترین دور کی قیادت کی، جسے سنہری دور کہا جاتا ہے، یہاں تک کہ ہندوستان بھی ہمارے ماڈل، اور ایچ ای سی کے تقلید کا خواہش مند تھا جب کہ ہم ابھی بھی اس انحطاط کو لے کر لڑ رہے ہیں۔ ہندوستان آج اپنے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ایچ ای سی میں تبدیل کررہا ہے، جس کا ہم نے 2002 میں آغاز کیا! ڈاکٹر عطا کے وژن اور قیادت کے تحت ایچ ای سی نے ترقی کی منازل طے کیں۔

مگر بدقسمتی سے، ڈاکٹر عطاء الرحمن  کے وژن سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس وقت کی حکومت نے انہیں ایچ ای سی سے دور کر دیا  کیونکہ حکومت کو معلوم تھا  ڈاکٹر عطاء الرحمن انسانی وسائل کی ترقی کے لئے فنڈز میں کمی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، خاص طور پر پی ایچ ڈی اسکالرشپ اور پوسٹ ڈاک فیلو شپ، غیر ملکی فیکلٹی کی خدمات حاصل کرنے کے پروگرام، تحقیقی آلات کے حصول سمیت تحقیقی پروگرام، اور اسی طرح کے بہت سے دوسرے پروگراموں کے لئے جو انہوں نے شروع کیے تھے۔

آج، بہت سے نام نہاد اسکالرز  ایچ ای سی کے حوالے سے  لکھتے ہیں حتی کہ وہ ایچ ای سی اور اس  کے امور کے بارے واقعتاً ناواقف ہیں اور ایچ ای سی ایک خودمختار ادارہ اپنے نظام و انصرام کا ذمہ دار ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سے ایچ ای سی دو ہزار دو میں قائم ہوئی۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ کسی بھی چیئرپرسن کی تقرری کے وقت انتظامی، تحقیقی قابلیت، مطلوبہ تجربہ اور تعلقات عامہ کی مہارت کو مدنظر رکھا جائے تاکہ  وہ ایچ ای سی کے امور کو احسن طریقے سے  چلا سکے۔

اگر چئیرمین کی تقرری میں مندرجہ بالا خصوصیات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا تو پورا اعلی تعلیمی نظام متاثر ہوتا ہے جس کے ایچ ای سی سمیت ملک بھر کی جامعات پر منفی اثرات پڑتے ہیں جیسا کہ ابھی ہوا اور حالات آپ کے سامنے ہیں.

آج، ایچ ای سی انھی وجوہات کی بناء پر ناکام ہوچکا ہے، کیوں کہ جن لوگوں کو معاملات کی نگرانی میں رکھا گیا ہے ان کے پاس مناسب اہلیت اور تجربہ نہیں ہے۔ حال ہی میں برطرف ہونے والے چئیرپرسن ڈاکٹر طارق بنوری جسے نواز شریف کی حکومت نے مقرر کیا تھا، جنہیں ان کے حامیوں نے عالمی معیار کے اسکالر کی حیثیت سے ظاہر کیا۔

حالانکہ ان کی تقرری کے وقت ان کی اہیلیت و  تجربے پر کئی سوالات اٹھائے گئے یہاں تک یہ بھی واضح نہیں کہ کب وہ اسسٹنٹ، ایسوسی ایٹ یا پروفیسر تھے۔ اس کے نتیجے میں، ایچ ای سی آج بد انتظامی اور بے ضابطگیوں کا شکار ہے۔

کمیشن (بورڈ) کے اجلاس شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں، جو میرے دور میں قواعد کے مطابق ہر تین ماہ بعد باقاعدگی سے منعقد ہوتے تھے۔ کنسلٹنٹس، جن میں سے کچھ اہل نہیں ہیں، انہیں باہر سے بہت زیادہ تنخواہوں پر لایا جاتا ہے حالانکہ ایچ ای سی کے اندر سے اہل عملہ دستیاب ہوتا ہے، جس سے ادارے کے اندر بدگمانی اور غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ ایچ ای سی اسی وجہ سے نیب انکوائری اور فیڈرل آڈٹ اعتراض سے گزر رہا ہے۔ وائس چانسلرز کی باقاعدہ میٹنگز نہیں بلائی جاتی ہیں، اور فپواسا کو بطور سٹیک ہولڈرز نظر انداز کیا جارہا ہے۔

انسانی وسائل کی ترقی ایچ ای سی  کا بنیادی مشن ہے۔ ہنر مند نوجوانوں کے معیار اور مقدار دونوں کو بڑھانا اس کا مقصد ہے، جو پاکستان کا مستقبل ہے  فیکلٹی کی تعداد اور معیار دونوں کو بڑھانا اس کا مقصد ہونا چاہیے خاص طور پر پی ایچ ڈی کے ساتھ، (فی الحال اساتذہ میں 30 فیصد سے کم پی ایچ ڈی ہیں)۔

ایچ ای سی کو سب سے بڑا دھچکا لگا اور پاکستان کو برسوں پیچھے دھکیل دیا گیا جب موجودہ ایچ ای سی پچھلے 3 سالوں میں ایچ آر ڈی پروگراموں میں ناکام رہا۔ موجودہ 8000 سے زیادہ اسکالرشپ میں سے 500 کو موجودہ انتظامیہ نے کم سے کم ایوارڈ دیا۔

مثال کے طور پر، 200 اعلی درجہ کی یونیورسٹیوں میں بھیجے جانے والے 200 میں سے صرف 40 افراد کو اسکالرشپس سے نوازا گیا۔ ایک اور اقدام کے تحت، جسے یو ایس پاکستان نالج کوریڈور پی ایچ ڈی اسکالرشپ پروگرام کہا جاتا ہے، جس کو امریکہ کی اعلی درجہ کی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لئے 1500 اسکالرز بھیجنے تھے، صرف 100 سکالرشپ سے نوازا گیا۔

اسی طرح، منظور شدہ 1000 میں سے صرف 40 پوسٹ ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔ نالج اکانومی ٹاسک فورس کے ذریعہ منظور کردہ ایک اور پروگرام میں سینکڑوں سکالرز کو بیرون ممالک کی اعلی یونیورسٹیوں میں بھیجنا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اب تک ایک بھی اسکالرشپ ایوارڈ نہیں کیا گیا۔

ان تمام پروگراموں میں سست روی نے پچھلے تین سالوں میں پاکستان میں انسانی وسائل کی ترقی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

تعلیمی لحاظ سے، دو سال کے بیچلرز اور ماسٹرز، ایک ترمیم شدہ انڈرگریجویٹ نصاب کا خاتمہ، اور بیچلرز ڈگری (ریسرچ یا ماسٹرز کے بغیر) کے بعد پی ایچ ڈی پروگرام میں براہ راست داخلے کی پالیسوں پر یونیورسٹیوں میں کافی تحفظات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان یکطرفہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ناممکن ہوگیا-

ایچ ای سی آج انتظامی سطح پر زوال کا شکار ہے  وزیر اعظم، جو ایچ ای سی کے کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں ان کو لازمی طور پر معاملات کا نوٹس لینا چاہیے اور صحیح قیادت کا تقرر کرکے ایچ ای سی کو اس کے سنہرے دور میں واپس لے جانا چاہیے اور اس کی بحالی ضروری ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس کے ہنر مند نوجوانوں سے ہے۔ ایچ ای سی ایک قومی ادارہ ہے جو ملک کو معاشی بحالی، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر جاوید لغاری سابق چیئرپرسن ایچ ای سی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *