کیا سمیسٹر سسٹم کی روح پرواز کر گئی؟
- April 15, 2019 12:24 pm PST
ماہ وش طالب
جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ رہنا بے حد ضروری ہے یہ ہمیں وقت کی دوڑ میں شامل ہوکر عالمی دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے میں مدد دیتی ہے بلکہ ہماری ذہنی و فکری صلاحیتوں کو مثبت طور پر اجاگر کرتی ہے۔ کوئی بھی نظام منصوبہ بندی کے تحت متعارف کرایا جائے تو نتائج بھی ویسے ہی برآمد ہوتے ہیں اور اگر منصوبہ بندی خارج ہوتو اس کی افادیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں مشرف آمریت میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کرنے کے بعد جامعات میں سمیسٹر سسٹم نافذ کیا گیا لیکن صوبے کے کالجوں میں یہ نظام 2010ء میں متعارف ہوا۔ سمیسٹر سسٹم میں نصاب پڑھنا، ریسرچ، تھیسز، رپورٹ یا پراجیکٹ مکمل کرنا ڈگری کا اہم حصہ ہیں۔
سمیسٹر کا دورانیہ 16 سے 18 ہفتے کے درمیان ہوتا ہے۔ پہلے آٹھ ہفتوں بعد مڈ ٹرم اور اگلے ہفتوں کے بعد فائنل ٹرم لیا جاتا ہے اور سمیسٹر سسٹم میں سالانہ امتحان کی طرز پر کچے امتحان کی روایت نہیں ہوتی۔
سمیسٹر سسٹم آسان طریقہ تعلیم ہے، برق رفتاری سے ایک سمیسٹر مکمل ہوا اور اس سمیسٹر کے سبق بھلا کر اگلے سمیسٹر میں شامل ہوگئے۔ محدود وقت کے باعث اساتذہ اور طلباء جلد بازی کا شکار رہتے ہیں۔ چھ مہینے پر مشتمل سمیسٹر حقیقت میں چار ماہ اور کچھ دنوں پر محیط ہوتا ہے جس کے باعث نصابی مواد بھی پوری طرح نہیں پڑھایا جاتا۔
جامعات کی سطح پر بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا حصول چیلنجنگ ہے۔ درسی کتب، ہینڈ آئوٹس، سمیسٹر فیس کی ادائیگی ہر چار مہینوں بعد طالب علم کو لازمی دینا ہوتی ہے۔ تعلیمی خرچوں کی یہ جنگ جیتنا عام طالب علم کے لیے مشکل ہدف ہوتا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لیے طلباء کو پارٹ ٹائم ٹیچنگ یا کوئی دوسری ملازمت اختیار کرنا پڑتی ہے۔ سمیسٹر سسٹم کی اس باگ دوڑ میں علم میں اضافہ، شخصیت سازی کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔
سمیسٹر سسٹم کے بوجھ تلے اساتذہ بھی ہوتے ہیں۔ سرکاری نوکری مارننگ کلاسز میں ہوتی ہے جبکہ دوپہر اور شام کی کلاسز پڑھا کر اساتذہ اپنا اناج جمع کرتے ہیں، کوالٹی کو پس پشت ڈال کر محض کارروائی پوری کی جاتی ہے کیونکہ جامعات میں نالج آڈٹ کا کوئی میکانزم ہی موجود نہیں ہے۔ اس کا لازمی اثر طلباء کے رویوں میں پیدا ہوتا ہے جو ہر سمیسٹر کو صرف رسمی انداز میں ہی پڑھنے پر اکتفاء کرنے لگتے ہیں۔
جامعات میں چند ایک اساتذہ اُن طلباء کو جانفشانی سے پڑھاتے ہیں جو لگن اور محنت کے ساتھ مطالعے اور تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
نجی جامعات کے مالکان کے نزدیک تعلیم ایک پُرکشش کاروبار ہے اس لیے وہ اپنی جامعات میں صرف ایسے مضامین ہی آفر کرتے ہیں جو کارپوریٹ ضروریات کو پوری کرتے ہیں یا کمرشل مارکیٹ کو ایسے گریجویٹس فراہم کرتی ہیں جو کمپنیوں کو درکار ہوتے ہیں۔
ایسے ہی جن سرکاری کالجوں میں سمیسٹر سسٹم کے تحت بی ایس آنرز آفر ہورہا ہے وہاں سائنسی مضامین کے لیے لیبز کی کمی، جدید سائنسی آلات کی قلت، قدیم کمپیوٹرز، خستہ حال کلاس رومز طلباء کے لیے حسرت و یاس کی تصویر کے سواء کچھ نہیں ہوتے۔ جب ایسے اداروں میں سمیسٹر سے مسابقت تعلیمی سہولیات ہی موجود نہیں ہوں گی تو پھر یہاں ہونے والی ریسرچ کا مقصد بھی رسمی کارروائی پوری کر کے ڈگری لینا رہ جاتا ہے۔
ملاوٹ سے بھرپور, نقل کیا گیا تھیسسز اور خیالاتی و تصوراتی طور پر کئی گئ ریسرچ کے کھوکھلے نتائج لے کر بچے جب جامعات یا دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں تو ان کا سی جی پی اے ( تو اسّی یا نوّے فیصد کو چھورہا ہوتا ہے, مگر ان کا علم خام مال کی مانند ہوتا ہے۔
ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم اور نالج کا حصول چونکہ ٹیچر پر کم اور خود طالب علم پر زیادہ منحصر کرتا ہے کہ یہ ڈگری ریسرچ پر مبنی ہوتی ہے۔ لہذا سہولیات اور مواقع کی کمیابی استاد اور طالبِ علم کی باہمی سستی و غیر دلچسپی دو سال کے ایم فل کو کھینچ کر تین سال اور تین سے پانچ سال کی پی ایچ ڈی کو دس سال تک لے جاتی ہے۔
سمیسٹر سسٹم میں اُستاد پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کا نظام متعارف کرا دیا جائے تو اس سے مثبت نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ ہماری جامعات میں نالج آڈٹ کا میکانزم تیار کرنے کی ضرورت ہے اس کی نگرانی جامعات کی مرکزی انتظامیہ یا تعلیمی کمیشن کر سکتے ہیں۔ نالج آڈٹ میں دیکھا جائے کہ اُستاد نے کلاس رومز میں کیا اور کیسے پڑھایا اور طالب علموں نے کیا اور کتنا سیکھا۔ نالج آڈٹ میں اُستاد کی تعلیمی پرفارمنس کو اس کی پروموشن کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔
نالج آڈٹ کا نظام لاگو کر کے جب اُستاد کو ذمہ دار بنایا جائے گا تو لازمی طور پر اس کے اثرات طلباء پر مرتب ہوں گے۔ سمیسٹر سسٹم کی بنیادی روح یہی ہے کہ جامعات میں اساتذہ اور طلباء مل کر نیا علم تخلیق کریں بالخصوص ایم فل و پی ایچ ڈی کی سطح پر نیا علم تخلیق ہونا ضروری ہے۔ سمیسٹر سسٹم میں آزادی کو ضابطوں کے ماتحت کر کے ہی ہم سماجی ترقی کے لیے نتائج برآمد کرسکتے ہیں۔