اسلامیہ یونیورسٹی: طالبعلم کا شکوہ جواب شکوہ
- January 22, 2017 7:41 pm PST
مغیث علی
یونیورسٹیوں میں سالانہ داخلوں کے بعد نئی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے یونیورسٹی میں قدم جمانے والے طالب علم بہت سے خواب اور امنگیں دلوں میں جگائے ہوئے ہیں اور انہیں سر کرنے کیلئے ہمت و حوصلہ بھی لازوال رکھتے ہیں۔
بہت سے ایسے طلباء بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو اپنی نااہلی کا سارا ملبہ یونیورسٹی پر ڈالتے نظر آتے ہیں اگر آپ تھوڑی سی ان کی مخالفت کرنے کی جسارت کریں تو یہ توپوں کا رخ آپ کی جانب کر کے ایک بہتر ین لیکچر ہمارے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں کی نااہلی کے بارے میں دیں گے اور پھر جواب سنے بغیر آپ کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے بعد چلتے بنتے ہیں ۔
میں ایسے کئی تلخ تجربے کر چکا ہوں اب احتیاط سے کام لیتا ہوں اور شہد کی مکھیوں کے ’چھتے ‘ کو چھیڑنے سے کتراتا ہوں یعنی کے ’خاموشی‘ میں اپنی بھلائی سمجھتا ہوں۔
یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد بہت ہی کم ایسے لوگ ہوتے ہیںجو اپنی اپنی ”فیلڈ“ میں گئے ہوں بیروزگاری،متعلقہ ڈگری کی فیلڈ میں مہارت کا نہ ہونا اور خود پر عدم اعتمادی کے باعث کسی غیر متعلقہ شعبے میں گھس بیٹھیے کی طرح قابض ،مسلط یا پھر مجبوراً نوکری کرنے کیلئے خود کو آمادہ کر لیتے ہیں۔
نتیجتاً وہ رزلٹ نہیں دے پاتے جو متعلقہ شعبہ ان سے توقع رکھتا ہے ۔پھر تناﺅ بڑھتا ہے اور مذکورہ ڈگری ہولڈر جو غیر متعلقہ ”فیلڈ“ میں مجبوراً آجا تا ہے ساری زندگی اپنے آپ کو کوستے ہوئے گزار دیتا ہے۔
مجھے یونیورسٹی کا پہلا دن یاد ہے جب میں نے دو دو طالبعلموں سے ڈیپارٹمنٹ کار راستہ پوچھا تو جواب ملا نیو ایڈمیشن ہے تو میں نے بھی سر ہلا دیا، راستہ تو بتا دیا لیکن ساتھ میں یہ جمعہ بھی کس چھوڑا کہ ” کوئی اور یونیورسٹی نہیں ملی تھی “ یہ تو ”کھجی مارکہ“ یونیورسٹی ہے ۔
میں دو سال تک اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پڑھا مجھے اُن دو طالبعلموں کی بات میں وزن نہیں لگاجنہوں نے اس یونیورسٹی پر تنقید کی تھی۔ اکثر طلباء کو یہ شکوہ رہتا ہے کہ انہیں صرف ’تھیوری‘ پڑھائی جاتی ہے ”پریکٹیکل“ نہیں کرایا جاتا اور ’سلیبس‘ پرانے وقتوں کا ہے جدید ’سلیبس‘ نصاب میں شامل نہیں۔ اس میں دو رائے نہیں یونیورسٹی میں اساتذہ کی ’گروپنگ ‘’پسند نہ پسند‘ ’لسانی و مذہبی تعصب‘ اس کے علاوہ سہولتوں کا فقدان ، بہترین گائیڈ لائن کا نہ ہونا طالب علموں کیلئے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔
ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ طالب علموں سے ایسی کیا غلطیاں سر زد ہوتی ہیں کہ وہ بعد میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد یونیورسٹی سے گلہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ایک طالب علم سے سب سے پہلی غلطی یہ سرزد ہوتی ہے کہ وہ کسی سے متاثر ہو کر یا پھر کسی کے مشورے پر کسی نہ کسی شعبے میں داخلہ لے لیتا ہے ۔ یا پھر وہ جس شعبے میں جانا چاہتا ہے وہاں داخلہ نہیں ملتا تو وہ کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ کا انتخاب کرکے اس میں چلا جاتا ہے یہ دو غلطیاں بہت اہم ہیں۔ یہیں سے غلطیوں کی لڑی شروع ہوتی ہے اور پھر غلطی پر غلطی سرزد ہوتی رہتی ہے۔
یہ بنیادی مسئلہ ہی کیرئیر کونسلنگ کا ہے کہ طالبعلم کو میڑک اور انٹرمییٹ میں گائیڈ نہیں کیا جاتااب جب بغیر کسی وجہ یا حادثاتی طور پر کسی شعبے میں داخلہ ملنے کے بعد طالب علم اپنا اعتماد کھو دیتا ہے اور اسی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اس کا شعبہ تو کوئی اور تھا لیکن وہ اب یہاں آگیا یہ اس کا شعبہ نہیں اور اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔
یہ طالبعلم کے ذہن کو مفلوج کرنے کا نقطء آغاز ہے لیکن طالب علم یہ بات ماننے کو تیار نہیں آخر میں سوائے مایوسی کے کچھ نصیب نہیں ہوتا۔ اب نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھائی میں دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔
چنانچہ یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے نصاب کے علاوہ طالب علم کسی دوسری کتاب کو ہاتھ لگانا بھی گوارہ نہیں کرتے یہاں تک کے ’نوٹ‘ کئے ہوئے لیکچر کو بھی پیپر ز کے دوران دیکھتے ہیں ۔ 80فیصد ایسے طلب علم ہوتے ہیں جو یونیورسٹی لائبریری کارڈ استعمال نہیں کرتے دو یا چار سال یونیورسٹی میں گزارنے کے بعد ان کے لائبریری کارڈ ’کورے کاغذ‘ کی مانند ہوتے ہیں ۔
اگر یونیورسٹی میں پریکٹیکل ورک نہیں کرایا جاتا تو کبھی انہوں نے خود بھی کرنے کی کوشش نہیں کی اگر کوشش کی تو پھر کوئی نہ کوئی بہانہ سامنے آجاتاہے جس پر وہ پریکٹیکل ورک کرنا بھی اپنے اوپر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں ۔
پیپر صرف ایک رات کی تیاری کے بعد دینا اکثر طالب علموں کا معمول ہوتا ہے میں اس سے اختلاف نہیں کرتا لیکن طالب علموں کے پاس اتنا مطالعہ ہونا چاہیے کہ وہ اگر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو جو نصاب انہیں پڑھایا جاتا ہے اس پر ’گرپ‘ ہونے کیساتھ انہیں دیگر کتابوں کا ریفرنس اور پریکٹیکل ورک کا تجربہ ضرورہوناچاہیے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو پاتا ۔
یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد طالب علموں کا یہ گلہ شکوہ کرنا کہ انہیں یونیورسٹی میں معیاری تعلیم نہیں دی گئی یہ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
اس تعلیمی نظام میں جہاں طالبعلم قصور وار ہوتے ہیں وہیں پر اساتذہ پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جدید تعلیمی نظریات کے مطابق تدریس کرنا اور طالبعلموں میں سیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں اُستاد ہمیشہ معاون ہوتا ہے۔ ہم اُستاد شاگرد سے اور شاگرد اُستاد سے گلے شکوے تک ہی محدود رہا تو تعلیمی اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔