جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اقلیتی شناخت ختم، حکومتی حلف نامہ عدالت میں

  • August 13, 2017 1:47 pm PST
taleemizavia single page

نئی دہلی

نیشنل کمیشن فار مائنوریٹی ایجوکیشنل انسٹیٹیوشن نے 2011ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اقلیتی کردار کو بحال کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ کمیشن نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ جامعہ ملیہ مسلمانوں کے ذریعہ، مسلمانوں کو فیض پہنچانے کیلئے قائم کیا تھا اور اس نے مسلم اقلیتی ادارہ کے طور پر اپنے کردار کو کبھی نہیں کھویا۔

کمیشن کے ایکٹ کی دفعہ تیس کے تحت یہ ادارہ اقلیتی ہے۔ اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے جامعہ ملیہ نے جب درج فہرست ذات و قبائل نیز دیگر پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کو ختم کرتے ہوئے اپنی پچاس فیصد نشستیں مسلم طلباء کیلئے مختص کر دیں تو اسے عدالت میں چیلنج کر دیا گیا۔ اس وقت مرکز میں یوپی اے حکومت تھی اور کپل سبل وزیر برائے فروغ انسانی وسائل تھے۔ ان کی وزارت نے اس ضمن میں عدالت میں داخل کیے گئے حلف نامہ میں جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کی حمایت کی تھی۔

اب مودی حکومت نے تازہ حلف نامہ داخل کر کے عدالت کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے کہ دو ہزار گیارہ کا حلف نامہ قانونی معاملات کو سمجھنے میں حکومت کی ناکامی کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی وہ دو ہزار گیارہ کے حلف نامہ کی مخالفت کرتے ہوئے جامعہ ملیہ کے اقلیتی کردار کی مخالفت کرے گی۔

اس حوالے سے جب قومی اقلیتی کمیشن برائے تعلیمی ادارہ جات کے سابق چیئرمین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی سے رابط کیا گیا تو انہوں نے اطمینان دلایا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہوگا وہی جو عدالت فیصلہ کرے گی۔

جب دو ہزار گیارہ میں جامعہ ملیہ کا اقلیتی کردار بحال ہوا تھا اُس وقت سہیل اعجاز صدیقی ہی اس کمیشن کے چیئرمین تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور دیگر مسلم لیڈرز کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں ڈاکٹر ذاکر حسین نے اہم کردار ادا کیا تاہم مودی حکومت عدالت میں یہ دعویٰ کرے گی کہ جامعہ ملیہ کا قیام چونکہ پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے سے ہوا ہے اس لیے کبھی بھی حکومت کی اسے اقلیتی ادارہ بنانے کی منشاء نہیں رہی ہے۔

مرکزی حکومت اس بات پر بھی زور دے گی کہ اس ادارے کو سالانہ فنڈز حکومت فراہم کرتی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تعلق سے مودی حکومت کا یہ فیصلہ اچانک نہیں ہے۔ جب فروغ انسانی وسائل کی وزیر اسمرتی ایرانی تھیں تب ہی اس وقت کے اٹارنی جنرل نے وزارت کو مشورہ دیا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اقلیتی ادارہ نہیں ہے کیونکہ اس کا قیام پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت عمل میں آیا ہے۔

اُنہوں نے کہا تھا کہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عدالت میں اپنا نظریہ بدل دے اور اقلیتی درجہ کی مخالفت کرے۔

اُنیس سو بیس میں قائم ہونے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو 1988ء میں پارلیمنٹ میں پاس کیے گئے ایک قانون کے ذریعہ مرکزی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا تھا اب اسی قانون کو جامعہ کا اقلیتی کردار چھیننے کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ تقریبا یہی معاملہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا بھی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جامعلہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار پر معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اس کے باوجود یہاں اقلیتی بچوں کو پچاس فیصد کا کوٹہ مل رہا ہے جبکہ علی گڑھ یونیورسٹی میں عدالتی حکم امتناعی کے باعث مسلمان طلباء کو کوٹہ پر داخلہ نہیں ملتا۔

اقلیتی اداروں کو قانونی اعتبار سے پچاس فیصد کوٹہ دینے کا حق ہوتا ہے اس سلسلہ میں جسٹس صدیقی کہتے ہیں کہ حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اپنا نیا حلف نامہ داخل کرے لیکن فیصلہ تو عدالت کو ہی کرنا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *