سیاست کا خان: عمران خان کون ہے؟

  • October 6, 2016 8:56 pm PST
taleemizavia single page

محسن بلال

چشم فلک نے 30 اکتوبر 2011ء کی شام مینار پاکستان لاہور سے عجب منظر دیکھا۔ لوگوں کے سر ہی سر تھے اور سٹیج سے ایک خوبرو نوجوان نما شخص تبدیلی اور نیا پاکستان کے خواب انہیں دکھا رہا تھا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کروٹ لے رہی تھی۔ اس خوبرو نوجوان نما شخص میں عوام کو لیڈر دکھائی دیا جو اُن کے دکھوں کا مداوا کرے گا۔

جو خواب وہ انہیں دکھا رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے یہ شخص ہر ایک کے خواص پر سوار ہوگیا۔ جیسے حقیقت میں تبدیلی آ گئی ہو۔

گویا ہر جگہ اسی کے چرچے، اسی کے قصے،اسی کی باتیں، پاکستان کا ہر تیسرا فرد اسی خوبرو نواجوان کا تذکرہ کرتے سنائی دیا۔

سیاسی حلقوں میں بے چینی بڑھی کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ شخصیت کا ایسا سحر کے ہر کوئی اس کے گرد بھنورے کی طرح منڈلانے لگا۔

کرکٹ کا خان، سیاست کا خان بن گیا۔

بطور کرکٹر پوری دنیا میں نام کمایا۔ سیاست میں قدم رکھا تو چند وفاداروں کے علاوہ کوئی ساتھ چلنے کو تیار نہ ہوا۔ بطور کرکٹ تو عمران خان زندہ رہا لیکن بطور سیاست دان کبھی جیت کا سامنا اور کبھی ہار برداشت کرتا رہا۔

ماضی کا عمران خان مرا تو 30 اکتوبر کو نیا عمران خان پیدا ہوا۔ آج جو عمران خان زندہ ہے وہ عمران خان کرکٹر نہیں بلکہ سرمایہ داروں، سیاسی حلقوں سے دھتکارے ہوئے سیاستدانوں اور چلے ہوئے کارتوسوں کے گرد گھرا ہوا ہے۔

عمران خان اور اس کی سیاسی جماعت پاکستان کے ٹی وی چینلز، اخبارات کے مالکان کیلئے مال کمانے کا ایک منافع بخش ذریعہ بھی بن چکی ہے۔

عمران خان اب سرمایہ داروں کے گھیراؤ میں ہے اور یہی سرمایہ دار عمران خان کے تبدیلی کے نشان کو زندہ رکھنے میں معاونت کر رہے ہیں۔

کنٹینر سے ظالم حکمران کو للکارنا، کرپشن کرپشن کی گردانیں سنانا، امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کی پیش گوئی کرنا اور سیاسی نظام سے بیزاری کا اظہار کرنا عمران خان کی سیاست کا محور ہے۔

سرمایہ داروں کی مارکیٹ میں اب عمران خان بطور پراڈکٹ فروخت ہورہا ہے۔ اس پراڈکٹ کو کامیاب بنانے کے لیے سرمایہ کاری سے گریز ممکن نہیں کیونکہ اس کی کامیابی میں ہی انہیں منافع موصول ہوگا۔

عمران خان اب ایک برانڈ ہے جس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ کبھی مارکیٹ میں شادی کے چرچوں سے مشہوری تو کبھی طلاق جیسے سماجی ناپسندیدہ فعل پر ٹیلی ویژن پر تبصرے سبھی کچھ مارکیٹ میں فروخت ہوتا رہا۔

مستقبل میں کبھی بھی عمران خان قومی سطح پر سیاسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تو سیاست کا لبادہ اوڑھے سرمایہ دار چار گنا منافع وصول کریں گے جس کا بوجھ اس وطن کی مٹی پر ہی پڑے گا۔

غریبوں کے نام پر اشرافیہ پھر راج کرے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کے موجودہ حکمران بھی سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ سرمایہ دار اصل طاقت کا مرکز ہوتے ہیں جن کے پیش نظر صرف سرمائے کی قیمت وصول کرنا ہے۔

ان کا مذہب، ایمان، عقیدہ صرف سرمائے پر ہی منتج ہے۔ یہ سرمایہ دار عمران خان کو اپنے مالی مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہیں۔

وجودہ عمران خان سرمائے کا مجسمہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ عمران خان نہیں جو کرکٹ کی بدولت ہیرو بنا۔ اگر اس قوم نے اک کرکٹر کے ہیرو کو سیاست کا ہیرو حقیقی معنوں میں بنا نا ہے تو پھر سرمائے سے مجسمے پر جو بناؤ سنگھار کیا گیا ہے اس کو اتارنا ہوگا۔

عمران خان نے اپنی سیاسی تحریک کی جب ابتداء کی تھی تو اُس وقت وہ عام آدمی پر زیادہ انحصار کرتے تھے، ان کے عہدیداروں میں متوسط خاندان کے لوگ تھے، ان کے وفاداروں میں محب وطن تھے جو حقیقی طور پر پاکستان سے سرمایہ داریت کے چنگل سے آزادی کے خواہاں تھے۔

وقت رفتہ نے سب کچھ بدل دیا اور شاید اس کا آغاز بھی دو ہزار گیارہ میں ہی ہوا تھا۔ اگر عمران خان کی مرکزی قیادت پر نظر دوڑائیں تو ہمیں حیرانی ہو گی کہ یہ قربت چند سالوں میں کیسے ہوگئی؟

وہ عمران خان جو سٹیٹس کو توڑنے کی بات کرتا رہا اور یہی ان کی سیاسی طاقت تھی۔ لیکن پھر جہانگیر ترین خان، علیم خان اور پھر شاہ محمود قریشی جماعت کی پارٹی پالیٹکس اور پالیسی پر اثر انداز ہونے لگے۔

علیم خان کی شہرت شہر لاہور میں بہت مشہور ہے۔ شاہ محمود قریشی ملتان کی دربار کے گدی نشین ہیں اور وہ پیری مریدی کے کلچر کے تحت نہ صرف سرمایہ اکٹھا کر رہے ہیں بلکہ یہ سماجی ڈھانچہ اُن کی بقاء کی ضمانت بھی ہے پھر وہ کیسے اس کی مخالفت کر سکتے ہیں؟

جہانگیر ترین خان کاروباری شخصیت ہیں، پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے زیادہ ٹیکس دینے کا ریکارڈ رکھتے ہیں اُن کے پاس دولت کی طاقت ہے عوامی طاقت لے کر وہ اپنی زبردست طاقت پیدا کرنے کے خواہش مند ہیں۔

یہ خدشات حقائق پر مبنی ہیں، یہ سوچ عمران خان کی سیاسی پالیسی کے فیصلوں کی بنیاد پر جنم لے رہی ہے۔ عمران خان جو متوسط طبقے کی آواز بننے جارہے تھے، جو سماج سے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کی طاقت کو توڑنا چاہتے تھے لیکن وہ خود ان کے سحر میں چلے گئے۔

عمران خان نے یہ سب دانستہ کیا یا غیر دانستہ بہرحال اس کے نتائج اُن کی جماعت کی قومی سیاسی طاقت پر ضرور اثر پیدا کر رہے ہیں۔

کیونکہ عمران خان سیاسی افق پر فقط ایک اکیلی دم توڑتی امید بن کر اُبھرے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز یا پھر دیگر سیاسی جماعتوں نے اس سسٹم کا تحفظ کیا ہے اور عمران خان اس سسٹم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ان گروہوں کے حملوں سے بھی بچنا ہوگا جو عمران خان کی سیاست کو ہائی جیک کر رہے ہیں۔


mohsin

محسن بلال دس سال سے صحافت کے یپشے سے منسلک ہیں۔ تعلیم ، تہذیب و تمدن، اور معاشرتی روایات کے بدلتے رجحانات کو موضوع بناتے ہیں۔ سیاست پر بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنا ایک الگ نظریہ رکھتے ہیں۔وہ اب تک نیوز کے نمائندہ ہیں۔ اُنہیں ٹویٹر پر فالو کریں۔
@ mohsinsami85

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *