آئی سی ایس پر حملہ: کیا جمعیت رانگ نمبر ہے؟
- October 21, 2016 2:22 pm PST
مجتبیٰ شاہین
ضیاء الحق پاکستان کو دو چیزیں تحفے میں دے گیا، ایک اس خطے میں دہشت گردی اور دوسرا اسلامی جمعیت طلباء۔
ضیاء کی کوکھ سے نواز شریف نے جنم لیا لیکن ضیاء نے اسلامی جمعیت طلباء کو اپنے لے پالک بچے کی طرح پالا۔ بھٹو کے خلاف استعمال کیا، امیر المومنین بننے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے نظام مصطفی کی جو تحریک چلائی گئی جمعیت اس کے لیے یونیورسٹیوں کے طلباء کو متحرک کرتی رہی۔
آج یہی اسلامی جمعیت طلباء خود اسلام کے لیے بدنامی کا باعث بن چکی ہے جس طرح روایتی پیر فقیر مذہب کے نام پر لوٹ مار کرتے ہیں بالکل ویسے ہی جمعیت بھی مذہب کے نام پر چند درسگاہوں میں غنذہ گردی کرتی ہے۔ اس غنڈہ گردی میں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کی آشیر باد ہوتی ہے اور جمعیت کے لیے متوسط گھرانوں کے نوجوان ایندھن کا کام کرتے ہیں۔
مذہب کے نام پر جمعیت بھی رانگ نمبر ہے یہ وہی رانگ نمبر ہے جس پر عامر خان نے پی کے فلم بنائی تاکہ مذہبی دھندہ فروشوں کے منہ سے پردہ اُٹھایا جائے۔
پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ علوم ابلاغیات پر جمعیت کا حملہ ان کی غنڈہ گردی کی تازہ مثال ہے جمعیت کو اب زندہ رہنے کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑ رہا ہے کیونکہ لاہور میں یہ جمعیت صرف منصورہ کے سہارے پر ہی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اگر کالج اور یونیورسٹی سے افرادی قوت میسر نہ ہوسکے تو پھر شباب ملی یا پھر جماعت اسلامی ہی جمعیت کی مدد کو آتی ہیں بھلا کیوں نہ آئیں دونوں ماں بیٹی جو ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت پر حملہ دراصل میڈیا پر حملہ ہے اور یہ جمعیت کی فاشسٹ سوچ کا بہترین نمونہ ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ میں جمعیت کے کارکن جس طرح حملہ آور ہوئے یہ اپنے جوش میں طالبان کے ہی جانشین لگ رہے تھے۔ موبائل پر گردش کرتی ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر موجود ہنگامہ کی تصاویراس طالبان نماجمعیت کی بہترین عکاسی کر رہی ہیں۔
جس طرح طالبان اپنی خفیہ کارروائیوں میں انسانوں کا بے دردی سے قتل کرتی ہیں اور اُنہیں عالمی ایجنسیوں کی معاونت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جمعیت بھی اپنی غنڈہ گرد کارروائیوں میں طلباء پر بے دردی سے تشدد کر کے اپنے فاشسٹ نظریات کا پرچار کرتی ہے اور انہیں جماعت اسلامی کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔
جمعیت سوچ نہیں بلکہ اس شدت پسند اور تشدد پسند رویے کا نام ہے جو بھی اس تنظیم کا حصہ بنے یہ دونوں رویے اُس کی ذات کا حصہ بن جاتے ہیں۔ سرکار کے تعلیمی اداروں کی بربادی میں جمعیت کی فاشسٹ اسلامی سوچ کا چار دہائیوں سے کردار رہا ہے۔ میڈیا ڈیپارٹمنٹ پر یہ حملہ کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا۔
اس طرح کا حملہ 2007ء مغیث الدین شیخ کے دور میں بھی کیا گیا تھا اور اسی طرح توڑپھوڑ حتیٰ کہ شعبے کے اُستاد پروفیسر مدثر شاہ کو بھی زخمی کیا گیا تھا۔
جمعیت پنجاب یونیورسٹی کو اپنا قلعہ تصور کرتی ہے اور اس قلعہ نے ماضی میں جمعیت کی بہت خدمت کیااگرچہ اب جمعیت کی گرفت اس جامعہ پر کمزور ہوگئی ہے لیکن ماضی میں جماعت اسلامی نے یہاں سے افرادی قوت حاصل کی کشمیر کے جہاد میں، افغانستان کے جہاد میں کئی نوجوانوں کا خون ضائع کیا گیا جس پر جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین مرحوم قوم سے معافی بھی مانگی تھی۔
متوسط گھرانوں کے والدین اپنے بچوں کو یونیورسٹی میں تعلیم اور روشن مستقبل کی خاطر بھیجتے ہیں نہ جانے وہ کس طرح پیٹ کاٹ کاٹ کر یہ اخراجات برداشت کرتے ہیں ۔ مذہبی رجحان رکھنے والے ان معصوم طلباء کو جمعیت ورغلا کر بلکہ جھانسہ دے کر اپنے فاشسٹ نظریات کا حامی بناتی ہے اور پھر غنڈہ گردی کرنے کے لیے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔
والدین کے خواب خواب ہی رہ جاتے ہیں اور جمعیت ان خوابوں کو ارمان میں بدلنے کا کام کئی سالوں سے کر رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں بیالیس ہزار طلباء کی تعداد میں صرف تیس کے قریب جمعیت کے کارکن ہوں گے جو یونیورسٹی میں انارکی پھیلا کر اپنا وجود برقرار رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔
میڈیا ڈیپارٹمنٹ پر حملہ اسی تگ و دو کا سلسلہ ہے، جمعیت کا اسلام صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی خطرے میں ہوتا ہے۔ اس جمعیت کا اسلام یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی میں، سپیرئیر یونیورسٹی میں، پنجاب گروپ آف کالجز میں خطرے میں نہیں پڑتا جہاں سب کچھ چلتا ہے۔ حالانکہ ان تینوں اداروں کے مالکان جمعیت یا پھر جماعت اسلامی کے ہی کارکن رہے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں کیونکہ غریب اور متوسط خاندانوں کے بچے آتے ہیں اور انہیں اپنا خیر خواہ بنانے کے لیے جمعیت کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی اس لیے جمعیت اس جامعہ میں اپنا وجود قائم رکھ کر یہاں سے افرادی قوت حاصل کرنا چاہتی ہے جو کہ اب ممکن نہیں ہے۔
تشدد، مار دھاڑ، ہنگامہ آرائی کے ذریعے سے انارکی تو پھیلائی جاسکتی ہے لیکن اس سے جمعیت کو اب یونیورسٹی سے افرادی قوت ملنا مشکل ہے کیونکہ بیالیس ہزار طلباء میں سے صرف تیس لوگوں کا ہی بطور رکن متحرک ہونا جمعیت کی شکست کے لیے کافی ہے، جمعیت کے رانگ نمبر کو اب طلباء بخوبی سمجھ چکے ہیں۔
جمعیت کا معاشی ناطقہ اُس وقت ہی بند کر دیا گیا جب یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر جمعیت کے قابضین سے کمرے چھڑوائے گئے، جب کنٹینز سے ان کی مفت کی روٹیاں بند کی گئیں۔ اس معاشی ناطقہ کی تکلیف جمعیت کو جب بھی ہوتی ہے تو وہ پھر تشدد کا راستہ اپنا کر طلباء میں خوف و ہراس پھیلاتی ہے۔
گزشتہ ہفتے پنجاب یونیورسٹی کے ہیلے کالج میں جمعیت کے پانچ کارکنوں نے اساتذہ کے ساتھ جو بدتمیزی کا رویہ اپنایا وہی ان کے فاشسٹ نظریات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ جمعیت کے تشدد پسند رویے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
اسے سمجھنے کے لیے ہمیں جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کی طرف دیکھنا ہوگا، جماعت اسلامی کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ زمانہ طالبعلمی میں کیا کچھ کرتے رہے یہ کوئی اُن کے رفقاء سے ہی جان لیں تو بہتر ہے، فرید احمد پراچہ کون تھے وہ بھی کوئی اُنہی رفقاء سے ہی پوچھ لے تو بہتر ہے، حافظ سلمان بٹ جن کے بیٹے جبران بٹ لاہور میں جمعیت کے ناظم ہیں اُنہیں یہ عہدہ اس لیے ہی دیا گیا ہے کہ تشدد پسند نظریات کو کیسے نئے لوگوں میں منتقل کرنا ہے کیونکہ اُنہیں سیکھانے کے لیے جماعت اسلامی سے وابستہ اُن کے والد محترم سے بہتر انتخاب کون ہوسکتا ہے؟
اب جب جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں وہ افراد شامل ہیں جو ضیاء دور میں تشدد کی سیاست کا پرچار کرتے رہے تو وہ اسی اُصول پر ہی اپنے جانشین پیدا کرنے کی مشق کرتے چلے آرہے ہیں۔ جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں تبدیلی آئے گی تو اسلامی جمعیت طلباء کی فاشسٹ سوچ میں شاید کوئی اثر پیدا ہو لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ جماعت اسلامی خود سے انہی نظریات کی پیروکار ہے۔ (جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق تو انتہائی سمجھدار ہیں اور جماعت کی دوبارہ سے اُٹھان بھی چاہتے ہیں اُنہیں اس بااثر مرکزی قیادت کی ایسی پالیسیوں کا سد باب کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی
جماعت اسلامی کے فاشسٹ نظریہ کو قومی سطح پر شکست ہوچکی ہے جس کا ثبوت نیشنل اسمبلی میں ان کی سیٹوں سے لگایا جاسکتا ہے حتیٰ کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جماعت کے جنرل سیکرٹری کو اپنے ہی حلقے سے دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں شکست ہوگئی تھی، عوام میں جماعت اور جمعیت کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے یہی ثبوت کافی ہیں۔
اب جمعیت کی نظریاتی آبیاری جماعت کے پلیٹ فارم سے ہی ہوتی چلی آرہی ہے لہذا جمعیت عقل و دلیل کی دُشمن ہے بلکہ لاٹھی کو ہی عقل سمجھتی ہے۔
جمعیت کا پنجاب یونیورسٹی کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ پر حملہ کرنا اور پھر اس کے کارکنوں کا نقاب پوش ہوکر یونیورسٹی میں انارکی پھیلانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ کیا یہ اسلام کا نفاذ ہے یا پھر فاشسٹ سوچ کو نافذ کرنے کی کوشش ہے۔
اب جمعیت کے اس حملے کے بعد ریاست اور حکمران جماعت کا خاموش رہنا سوائے سیاسی مصلحت کے کچھ نہیں ہے۔ میری تو جمعیت میں شامل نوجوانوں کے ساتھ ہمدردانہ اپیل ہے کہ وہ اپنے خاندان کا بہترین چشم و چراغ بننا چاہتے ہیں اور اپنا مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں تو پھر اپنی عقل و سوچ کے ساتھ فیصلہ کریں کہ جمعیت کا چناؤ ضروری ہے یا پھر اس قوم کا کارآمد شہری بننا۔
اسلامی جمعیت طلباء ایک رانگ نمبر ہے اس کا اندازہ تو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور، ویٹرنری یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء کو تو بخوبی ہوگیا ہے لیکن اب پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے ان تیس کارکنوں کو بھی اس رانگ نمبر کو سمجھنا ہوگا وگرنہ تپسوی مہاراج انہیں بے وقوف بناتا رہے گا۔
ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس بلاگ کے جواب میں کوئی بھی بلاگ لکھنا چاہے تو ادارہ اُسے شائع کرے گا۔
Very good article. Jamiat should be treated with iron hand and students should also come forward to save their university.
جمعیت کا عذاب کب تک طلباءپر نازل ہوتا رہے گا؟ جمعیت کے فاشسٹ نظریات نے ہزاروں نوجوانوں کو برباد کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں یہ ہنگامہ ہونے کے بعد حکومت کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔
Jamiat should be banned in all universities and colleges wherever they are operating forcefully. Jamiat don’t believe and peace & harmony in society. Why Shahbaz Sharif is silent on this brutal attack at ICS?
ہماری جمیعت سے وابستہ نوجوانوں سے ہمدردی ہے کہ کس طرح ان کی قیادت ان سادہ لوح نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر بھرتی ہے۔ کاش ان سادہ لوح نوجوانوں کو انسانیت دشمن اور پر تشدد تصورات سے بچایا جا سکے۔
جماعت اسلامی اور کا ذیلی ونگ ، جمعیت طلبہ ، ہمیشہ سے fascist پریشر گروپ کے طور پر کام کرتے رہے ہے ۔ انہیں ہمیشہ سے غیر جمہوری قوتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے ۔
nice one. but we need to stand against them. we need unity…
صرف چند مٹھی بھر عناصر نے پوری یونیورسٹی کو یرغمال بنا رکھا ھے لیکن پولیس انکے خلاف رپورٹ تک درج نہیں کرتی نہ ادرہ ایکشن لیتی ہے جس سے جس سے صاف ظاہر ہے کہ انکے پیچھے بہت بڑا ہاتھ ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا یہ ہر دوسرے دن ہوتا لڑکیوں کو ڈرا کہ نمبر لیکر بلیک میل کرتے ہیں یہ کویی ڈھکی چھپی بات نہیں نہیں ہے سب جانتے ہیں انکا اسلام صرف ان لڑکیوں کیلے ہے جو ان میں سے کسی کو پسند اجایے لیکن لفٹ نہ کرایے تب اس کی زندگی عذاب بنا دیتے ہیں
Biased opinion and cooked stories can never malign jamiat role in students politics. People may disagree with the ideology jamiat is following but this always require impartial and facts based analysis. Jamiat has long history in its contribution towards educational institutions and students. In free and fair student union elections jamiat stands out and wins contestants with overwhelming majority all over Pakistan.
Difference may exists the way jamiat carries oyt activities but jamiat myst be appreciated for its glorious role.
محترم مجتبیٰ شاہین صاحب۔
بصد احترام کیساتھ جامعہ پنجاب میں جو کچھ ہوتا ہے بڑی آسانی کیساتھ یہ کہہ دیا جاتا ہے اس کے پیچھے جمعیت ہے اور جمعیت والے کہہ دیتے ہیں کہ وائس چانسلر صاحب ہیں۔ آپ نے جو رانگر نمبر کا نکتہ اٹھایا ہے وہ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جامعہ پنجاب حالی ایک تعلیمی درس گاہ ہی نہیں بلکہ ایک ریاست ہے۔ اس ریاست میں شعبہ ابلاغیات سازشوں اور سفارشوں کا گڑھ ہے۔ اصل حقائق سے پردہ اٹھائے بغیر ایک جماعت اور اسکی طلبا تنظیم کو نشانہ بنانا درست نہیں۔ اب شعبہ ابلاغیات میں ایک ملک کے ایک جید صحافی کی صاحبزادی براجمان ہیں۔ وہ اگر جرات رندہ کا مظاہرہ کریں اور جن طلبا نے پرامن ماحول کو خراب کیا ہے انکو سزا دلوائیں تو ہم بھی مان جائیں۔ جہاں تک جمعیت کا تعلق ہے تو اپنی کمی کوتاہی کو چھپانے کیلئے ملبہ جمیعت پر ڈال دو یا پھر وائس چانسلر پر۔ جو رانگ نمبر ہے وہ پتہ سب کو ہے جرات رندہ کوئی نہیں کرتا۔ ذرا یہ بھی لکھیں جامعہ میں کسکا بیٹا،کس کی بیٹی وغیرہ وغیرہ نوکریاں لیکر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران کے حوصلے کو داد دینی چاہئیے جنکے کاندھوں نے بوجھ اٹھایا ہوا۔ آخر میں جناب کیلئے التماس ہے کہ یورپ میں ایک نئی ٹرم استعمال ہو رہی ہے ؛جہادی گیسٹر؛ جو تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے ہیں۔ جنکا کسی اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ کرائے پر ہیں۔ اپنی جامعات پر نظر دہرا لیں آپکو ایسا بہت کچھ مل جائے گا۔ حالی جمعیت جمعیت کا راگ الاپنا درست تجزیہ نہیں۔ جہاں تک وائس چانسلر صاحب کا تعلق ہے تو کم ہی اس طرز کے بہادر لوگ تعلیمی درس گاہوں میں ہیں۔ لکھنے سے آپ ان سے استفادہ کر لیتے۔
Mujtaba, you have written a good piece. At least you have courage to speak against Jamiat, this spirit required in universities students. Stand up for own rights!
Jamiat did attack on ICS just because of a girl. Jamiat ko student k zaati mamlaat main mudakhlt ka kis ny licence dia hai. Or Mohsin Bilal sb jo reality hai wo app hi comment main likh daity.
total wrong number
Jamiat chapter is close now
جمعیت کا عذاب کب تک طلباءپر نازل ہوتا رہے گا
Mje zaire behs waqia s to agahii nhi or na hi m jamiat ya jamat s lga bandha hn lekn itna zroor janta hn k jamiat or jamat nazriati tor per drust simat m ja rhii hn likhne wale ke andaz s nabiiina shakhs bhii andaza lga skta ha k ye mehz zaati mukhalifat ka nateeja m itna zehr ugla gea ha ak hii waqia ko na dekhen han jesa k pehle kah chuka hn k m is haadsa s bilkul be khabar hn is lie is mamla m jamiat ki begunahii sabit nhii krne ja rha lekn kia kren hmara muashraa is had ko choo chuka ha k sufaid kapre k dagh ko door s dikhta ha jabke uskii sufaidii r khobsoortii pr ksii ki nazar nhii partiii r jahan tk bat ha 30 logo k rukan hone kii to wazeh rahe k haq ka sath dene wale hmesha chand log hi hote hn or mukhalifat m bht ziada hte hn ye haq or baatil ka pehla farq ha …likharii bhai s guzarish ha K chand minut k lie tang nazrii or Zatii mukhalifat ko ak side p rakh kr jamiat kii positivity per bhii ak nazar dal lijie ga …JAZAK ALLAH ALLAH hami o nasir ho