ابن الہیثم نے افلاطون کے نظریات کو کیسے مسترد کیا؟
- October 14, 2018 11:56 am PST
فاروق احمد انصاری
الحسن ابن الہیثم المعروف ا بن الہیثم وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے درست طور پر بیان کیا کہ ہم چیزیں کیسے دیکھ پاتے ہیں۔ انہوں نے افلاطون اور کئی دوسرے ماہرین کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ آنکھ سے روشنی نکل کر اشیا پر پڑتی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔
انہوں نے اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ریاضی کا سہارا لیا جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ وہ طبعیات، ریاضی، ہندسیات (انجنیئرنگ) ،فلکیات اور علم الادویات کے مایہ ناز محقق تھے۔ ان کی وجہ شہرت آنکھوں اور روشنی سے متعلق تحقیقات ہیں۔
ابتدائی حالات
ابن الہیشم 965ء میں عراق کے تاریخی شہر بصرہ میں پیدا ہوئے۔ علم کے حصول کے لیے مصر چلے گئے اور اپنی وفات تک وہیں رہے-پڑھائی لکھائی میں خوب دلچسپی لیتے تھے۔ ریاضی، طبیعیات، طب، اِلٰہیّات، منطق، شاعری، موسیقی اور علم الکلام اُن کے پسندیدہ موضوعات تھے۔ ابن الہیثم نے ان مضامین میں محنت کر کے مہارت حاصل کی۔ بعد میں اُن کے دماغ میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ اپنی تحقیق و تجربات کو قیدِ تحریر کیا جائے تاکہ نہ صرف اپنی کتابیں وہ خود اپنے شاگردوں کو پڑھا سکیں بلکہ آئندہ نسلیں بھی ان سے استفادہ کر سکیں۔
ابن الہیثم کی عظمت
بصری علوم کے میدان میں نیوٹن سے پہلے ایک اور بہت بڑی ہستی سات سو سال پہلے گزری ہے۔ مغرب میں اکثر لوگوں نے ان کا نام کبھی نہیں سنا۔بلا شبہ یہ ایک عظیم ماہر طبیعات ہیں جن کا رتبہ نیوٹن کے برابر ہے ۔
علم بصریات پردنیا کی سب سے پہلی اورشاہکارتصنیف ’کتاب المناظر‘ابن الہیثم نے لکھی تھی۔ کروی اورسلجمی آئینوں پرتحقیق بھی ان کا شاندار کارنامہ ہے۔ انہوں نے لینس کی میگنی فائنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی۔ انہوں نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے بنائے۔ حدبی عدسوں پران کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی اسکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشےپر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجادکیا، جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (آنکھ کا پردہ)، کیٹاریکٹ اور کورنیا جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصے ’پتلی‘ کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے۔ لاطینی میں مسور کو لینٹل کہتے ہیں،جو بعد میں لینس بن گیا۔دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ یعنی پن ہول کیمرہ بھی ابن الہیثم کی ہی قابل فخر ایجاد ہے، جس سے تصویری صنعت کا آغازہوا۔
ابن الہیثم کو بھی ہر سائنسدان کی طرح اپنی دریافتوں کو تحریر کرنے کے لیے وقت اور تنہائی کی ضرورت تھی۔ 1011ء میں انہیں مصر میں دریائے نیل کے سیلاب کا سد باب کرنے میں ناکامی پر پکڑ لیا گیا۔ انہوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے سزا سے بچنے کے لیے پاگل پن کا ڈراما رچایا، جس کے بعد انہیں دس سال کے لیے نظر بند کر دیا گیااور اس قید تنہائی کا انہوںنے خوب فائدہ اٹھایا ۔
’’ابن الہیثم‘‘ پِن ہول کیمرہ اور لینس کا موجد
فلسفہ و نظریات
ان کی کتاب’’کتاب المناظر‘‘ بصریات کی دنیا میں ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ ابن الہیثم نے بطلیموس کے نظریات قبول نہیں کیے، بلکہ انہوں نے روشنی کے حوالے سے بطلیموس کے بہت سارے نظریات کی مخالفت کی اور انہیں رد کر دیا۔ ان کی روشنی کے حوالے سے دریافتیں جدید سائنس کی بنیاد بنیں، مثال کے طور پر بطلیموس کا نظریہ تھا کہ دیکھنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب روشنی آنکھ سے ٹکراکر کسی جسم سے ٹکراتی ہے، بعد کے سائنسدانوں نے اس نظریہ کو من وعن قبول کیا، مگر ابن الہیثم نے کتاب المناظر میں اس نظریہ کی دھجیاں بکھیر دیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے اور شعاع آنکھ سے نہیں بلکہ کسی جسم سے دیکھنے والے کی آنکھ سے ٹکراتی ہے۔
ابن الہیثم نے روشنی کا انعکاس اور روشنی کا انعطاف یعنی مڑنا دریافت کیا، انہوں نے نظر کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے عدسوں کا استعمال کیا۔ ان کی سب سے اہم دریافتوں میں آنکھ کی مکمل تشریح بھی ہے۔ انہوں نے آنکھ کے ہر حصہ کے کام کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ جس میں آج کی جدید سائنس بھی رتی برابر تبدیلی نہیں کرسکی۔ابن الہیثم نے آنکھ کا ایک دھوکا یا وہم بھی دریافت کیا جس میں مخصوص حالات میں نزدیک کی چیز دور اور دور کی چیز نزدیک نظر آتی ہے۔
تصانیف واثرات
سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصانیف شمار کی گئی ہیں، جو سائنس پر ان کا احسان عظیم ہے۔ راجر بیکن اور کیپلر نے ابن الہیثم کے کام سے بہت استفادہ کیا، جب کہ گلیلیو نے اپنی دوربین انہی کے کام سے استفادہ کرتے ہوئے بنائی۔