طلباء میں سوال کرنے کا حوصلہ کیسے پیدا کیا جائے؟
- October 19, 2019 1:13 pm PST
مُراد علی شاہد
فرانسس بیکن کا کہنا ہے کہ”جو زیادہ پوچھتا ہے وہ بہت سیکھتا ہے“گویا سیکھنے کے لئے سوالات کا پوچھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جیسے کہ مشہور قول ہے کہ جس کے ذہن میں سوال پیدا نہیں ہوتا وہ منافق ہے۔ اگر تدریسی عمل کی بات کی جائے تو سوالات اس عمل کا لازمی اور کلیدی جزو ہے،جس کو مدنظر رکھے بغیر موثر،بہتر اور جدید تعلیمی تدریس ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔
جدید اور معیاری تعلیمی درس گاہیں سوالات اور جوابات کو جدید تکنیکی نکات اور خیالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دے کر نصاب سازی کرتے ہیں۔اس لئے کہ ایک ممتحن کے لئے طلبا کی ذہنی استعداد کو جانچنے کا اس سے بہتر کوئی عمل اور تکنیک نہیں ہوتی۔
بچے کے کلاس میں سوال کرنے یا تحریری ٹیسٹ میں جواب لکھنے سے ہی اس کی سوچ،خیالات،ذہنی وفکری استعداد کا پتہ چل جاتا ہے۔جس سے ایک استاد کے لئے طالب علم کو جانچنے،پرکھنے اور نتیجہ نکالنے کا موقع مل جاتا ہے۔جوبچے کی کردار سازی میں ممدومعاون اس طرح ہوتا ہے کہ انہیں خیالات کی بنا پر ایک مثالی معلم بچے کی تربیت کرنا شروع کر دیتا ہے۔اب اگر بچے میں صلاحیت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بھی اپنے استاد کی طرح ایک مثالی طالب علم ثابت نہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالب علم سوال کیوں کرتے ہیں اور ایک استاد بچوں سے سوال کیوں پوچھتا ہے؟طلبا اپنے معلم سے سوالات اس لئے پوچھتے ہیں کہ دوران لیکچر وہ تدریسی ابہام جو بچوں کے ذہنوں میں پیدا ہو رہے ہیں ان کو دور کیا جا سکے تاکہ نصاب اور کتاب کی مکمل سمجھ آسکے۔دوران لیکچر استاد بچوں سے سوالات اس لئے کرتے ہیں کہ پتہ چلایا جا سکے کہ دوران لیکچر بچے کس قدر متوجہ تھے،کیا انہوں نے نفس مضمون کو سمجھا ہے کہ نہیں؟
بچوں کی ذہنی استعداد کو جانچنے کے لئے اساتذہ اپنے لیکچر میں سوالات کرتے رہتے ہیں اور پھر اس بات کا بھی پتہ لگانے کے لئے کہ بچوں نے کس قدر معلومات کوسمجھا ہے اور کیا اپنے ذہنوں میں سبق کو راسخ بھی کیا ہے کہ نہیں۔ سوالات نئی تکنیک کے ساتھ ساتھ ایسا تدریسی عمل ہے جو طلبہ میں حصول علم میں دلچسپی اور نصابی تقاضوں کی تکمیل میں بھی ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔سوالات کے بغیر طالب علم کو احسن طریقے سے جانچا نہیں جا سکتا۔
لہذا ایک مثالی معلم کو سوالات کرتے وقت خیال رکھنا چاہئے کہ طلبا کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو،سوالات آسان فہم ہوں،دلچسپ تدریسی عمل کے مطابق ہوں،معنی خیز ہوں،تاہم ایک استاد کو اس بات سے اجتناب برتنا چاہئے کہ سوالات پیچیدہ اور فلسفیانہ نہ ہو،کیوں کہ ایسے سوالات بچوں کو اور بھی الجھا دیتے ہیں۔موضوع سے متعلقہ معنی خیز اور آسان سوالات اساتذہ اور طلبا دونوں کے دماغ کو جلا بخشتے ہیں،علمی وسعت پیدا کرتے ہیں اور فریقین کے درمیان ایک خوشگوار فضا بھی پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔
سوالات کا میری دانست میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دلچسپ اور آسان سوالات سے بچوں میں تجسس کا مادہ پیدا ہوتا ہے ،یہی تجسس سبق یاد کرنے اور تحقیق کا جذبہ بیدار کرنے میں کارآمد ہوتا ہے۔اس لئے کہ تحقیق کی طرف طالب علم تب ہی مائل ہوتا ہے جب موضوع میں دلچسپی اجاگر ہو جائے ،اسی لئے طلبا میں مطالعہ،تجزیہ اور مشاہدہ جیسی صلاحیتیں بیدار اور اجاگر ہوتی ہیں۔
طالب علم اپنی صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہوئے تعلیم اور تعلیمی،تدریسی عمل سے اس وقت تک استفادہ نہیں کر سکتا جب تک کہ ان سے معلم کی طرف سے معیاری اور موثر سوالات نہ پوچھے جائیں۔ کیونکہ میری نظر میں معیاری سوالات محض ایک سرگرمی ہی نہیں ہے بلکہ ایک مکمل فن ہے۔ اور اس فن کا عملی اطلاق تب ہی ممکن ہوتا ہے اگر بچوں کی طرف سے بھی مثبت ردعمل آتا ہو۔
ایک مثالی استاد کو سوالات تیار کرتے وقت سوال میں ان خوبیوں کو ضرور مدنظر رکھنا چاہئے کہ سوال وضاحتی ہو،اختصار اور سادہ ہو،تاہم الفاظ میں ترتیب اور تسلسل وربط ضرور ہو،مقصدیت اور فکر انگیزی کے بغیر کوئی سوال موثر نہیں ہو سکتا،یعنی بچہ اگر پرائمری کلاس میں ہے تو اس سے بنیادی نوعیت کے سوالات ہی کئے جائیں اور اگر بچہ سیکنڈری کلاس میں ہو تو اس سے پرائمری سطح کے سوالات پوچھنے سے گریز کیا جائے.
ذہنی عمر کے لحاظ سے پوچھے گئے سوالات سے طلبا زیادہ مستفید ہو سکتے ہیں۔اس میں بھی رائی برابر شک نہیں ہونا چاہئے کہ تعلیمی وتدریسی عمل میں سوالات کی اہمیت وافادیت مسلم ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو تو ہمیں تعلیمی عمل میں معیاری وتکنیکی سوالات پر مشتمل تحریری وزبانی جائزہ لیا جانا ضروری خیال کرنا چاہئے اس طرح سے ہم معیاری تعلیم کے حصول کو ممکن بنا پائیں گے۔ اس طریقہ کار کو ہم سکولوں میں دی جانے والی ابتدائی تعلیم سے شروع کر سکتے ہیں.
یوں طلباء کو ابتدائی جماعتوں سے ہی سے سوال پوچھنے کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ کالج اور جامعہ کی سطح پر چونکہ تعلیمی نظام صرف مخصوص نصاب کا محتاج نہیں ہوتا اس لیے اعلیٰ تعلیمی جماعتوں میں سوالات کرنے کا رجحان زیادہ مثبت نتائج لا سکتا ہے۔