پاکستان میں اعلیٰ تعلیم:چشم کُشا حقائق پر مفصل رپورٹ

  • January 28, 2017 12:45 pm PST
taleemizavia single page

خالد خٹک

پی ایچ ڈی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بنیادی ڈھانچے کا جائزہ لینے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے مسائل حل کرنے کیلئے محققین اور سائنسدانوں کیلئے ماحول اور مواقع حوصلہ افزا ہیں؟

پاکستان نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت پورے ملک میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی جسے ہم جامعہ پنجاب(پنجاب یونیورسٹی لاہور) کے نام سے جانتے ہیں لیکن اب پاکستان میں 177یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم ادارے ہیں جن کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔

ان میں سے 103 سرکاری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیںجبکہ باقی نجی شعبے میں قائم ہیں۔ وفاقی حکومت نے ان میں سے صرف 33 یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو جبکہ باقی کو صوبائی حکومتوں نے چارٹر کیا ہے۔

جن اداروں کو وفاقی حکومت نے چارٹر کیا ان میں سے زیادہ تر دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہیں لیکن بعض ملک کے دوسرے حصوں میں موجود ہیں مثلاً قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو وفاقی حکومت نے چارٹر کیا ہے جو گلگت بلتستان میں واقع ہے۔

اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی (قریباً 9کروڑ) پنجاب میں ہے جو ملک کی آدھی آبادی شمار ہوتی ہے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ 51چارٹرڈ یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں جن میں 27سرکاری شعبے میں جبکہ 24نجی شعبے میں قائم ہیں۔

HEC Report4

سندھ کی آبادی پنجاب سے آدھی ہے یہ صوبہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے لحاظ میں بھی دوسرے نمبر پر ہے سندھ کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی تعداد (49)ہے۔ خیبر پختونخوا میں 29، بلوچستان میں 8 یونیورسٹیاں اور آزاد کشمیر میں 7یونیورسٹیاں قائم ہیں۔

اُنیس سو سنتالیس سے لے کر 2014ء تک پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے 11,988پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی میں طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہے جن میں غیرملکی طلباء بھی شامل ہیں۔

اُنیس سو سنتالیس سے لےکر 2002ء تک پاکستانی یونیورسٹیوں نے 3000پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی گئیں۔ حالیہ برسوں میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اجراء میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن 2001ء میں قائم ہوا جبکہ 2013 ء میں 1,211پی ایچ ڈی فارغ التحصیل ہوئے ، 2014ء میں 1,325افراد کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ملیں۔

زیادہ تر پی ایچ ڈی ڈگریاں(1,541)لسانیات اور ادب میں دی گئی ہیں اس کے بعد کیمسٹری میں 1,462ڈگریاں اور زراعت میں 908ڈگریاں دی گئی ہیں۔ 2014 میں اعلیٰ تعلیم اداروں نے انجیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں 500ڈگریاں جاری کیں جبکہ 908پی ایچ ڈی ڈگریاں مطالعہ مذہب پر دی گئیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو 2002ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن میں تبدیل کردیا گیا۔

HEC Report5

پاکستان میں ماضی کی حکومتوں نے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جو فنڈز جاری کئے ان کا تقابلی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم کیلئے کتنےپرعزم ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو 1978-79ء سے لے کر 2001-2ء تک 538.7538 ملین روپے کی گرانٹ دی گئی جبکہ 2002ء سے دو ہزار سولہ تک 194.115413 ملین روپے جاری کئے گئے۔

اس وقت پاکستان کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں، اعلیٰ تعلیمی اداروں 40 ہزار کے قریب اساتذہ تعلیمی فرائض سرانجام دے رہے ہیں جن میں صرف 10ہزار پی ایچ ڈی ہیں جو پاکستانی یونیورسٹیوں کے تدریسی عملے کا 25فیصد بنتاہے۔

ایچ ای سی کے قیام کے بعد پاکستان میں طلباء اور اساتذہ دونوں کو ملکی اور غیرملکی سکالرشپس مل رہی ہیں۔ایچ ای سی اپنے فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت 2450 سکالرشپس جاری کر چکا ہے جس میں 938 سکالرشپس انجیئرنگ اور ٹیکنالوجی میں دی گئیں۔

ان میں 493 سکالر شپس فزیکل سائنس اور 431 سکالر شپس عمرانی علوم میں دی گئیں۔ بیرون ملک سکالرشپ پروگرام کے تحت ایچ ای سی پاکستانی طلباء کو7806 سکالر شپس دے چکی ہے۔

جن میں سے 5683واپس آچکے ہیں جبکہ 2123 اپنے ایم فل اور پی ایچ ڈی مکمل کر رہے ہیں۔ جو واپس آچکے ہیں ان میں سے 1874 بائیولوجیکل اور میڈیکل سائنس میں ، 1406 نے فزیکل سائنس، 979نے انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سائنس میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ جن لوگوں کو سکالر شپس ملیں ان میں سے 1341کو امریکہ، 1226کو برطانیہ اور 907 کو کیوبا بھیجا گیا۔

امریکہ اور برطانیہ میں دنیا کی معروف یونیورسٹیاں قائم ہیں اسی لئے ایچ ای سی کے تحت وہاں کیلئے بھی سکالر شپس دی جارہی ہیں ۔ جبکہ کیوبا کی حکومت نے 2005ء کے زلزلے کے بعد پاکستانی طلباء کو میڈیکل میں سکالر شپس کی پیش کش کی تھی۔ یہ سکالرشپس ایچ ای سی کے ذریعے دی جاتی ہیں۔

ایچ ای سی نے ملکی سطح پر 9278 سکالرشپس فراہم کی ہیں جن میں سے 2333 طلبااپنی تعلیم مکمل کرچکے ہیں جبکہ 6945 طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان میں سے 2464 سکالر شپس فزیکل سائنسز میں ، 2174 بائیولوجیکل اور میڈیکل سائنسز میں جبکہ 1293 زراعت اور ویٹرنری سائنسز میں دی گئی ہیں۔

اگرچہ گزرتے ماہ و سال میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور پی ایچ ڈی سکالرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے اس کے باوجود سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل حل کرنے کیلئے محققین اور سائنسدانوں کو مناسب ماحول اور وسائل دستیاب ہیں؟

دیگر سوالات نئے علوم، محققین کی تعداد بڑھانے، تحقیقی لیبارٹریز، تھنک ٹینکس کی کافی تعداد، سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ساری بحث اس بڑے سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا پاکستان کی یونیورسٹیاں پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے سماجی معاشی منظر کو تبدیل کرنے کا مرکز ثابت ہورہی ہیں۔

ہمارے اساتذہ عموماً یونیورسٹیوں میں وسائل کی فراہمی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں۔

HEC Report6

یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور تحقیق کا جائزہ لینے کے مختلف معیارات قائم کئے گئےہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی کے بعد ان معیارات کو قومی تعلیمی ادارے مثلاً ایچ ای سی اور بین الاقوامی ادارے مثلاً کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ اور ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ ٹائم ہائراستعمال کررہی ہیں۔

پاکستان میں بین الاقوامی پس منظر کے ساتھ طلباء اور اساتذہ کو یہی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی ماحول اور اس کے اثرات،بشمول مختلف جائزوں کے فراہم کئے جارہے ہیں۔ 2001ء میں آئی ایس آئی ویب آف نالج پر صرف 877 کتابیں فہرست میں شامل کی گئیں۔ لیکن 2014ء تک پاکستان کی طرف سے 8163 کتابوں کی فہرست شامل کی گئی۔ 2006ء میں 73پیٹنٹس کیلئے پاکستان میں درخواست دی گئی جس میں سے صرف 22 کی منظوری دی گئی۔

ان میں سے 34پیٹنٹس کراچی کی یونیورسٹیوں ، 20پنجاب سے، 3خیبر پختونخوا سے اور 16وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے تھیں۔ یونیورسٹی آف بلوچستان کی طرف سے کوئی پیٹنٹ کی درخواست جمع نہیں کرائی گئی۔ منظور شدہ پیٹنٹ میں سے 12سندھ، 8پنجاب اور 2وفاقی یونیورسٹیوں کے منظور ہوئے۔

ان 22پیٹنٹس میں سے 14طبی اور ادویہ مقاصد کیلئے، 2 زراعت، 3 مواصلات اور کمپیوٹر سائنس کیلئے، ایک ایک پٹرولیم کی صنعت اور خوراک کی صنعت کیلئے جبکہ آخری عام صنعتی استعمال کیلئے تھی۔ ہماری پہلی بین الاقوامی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی پیٹنٹ امریکہ میں پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک آفس نے 2015ءمیں نینو لیوسٹ فرٹیلائزرکے نام سے منظور کی۔

نینو کھاد ڈالنے سے فصل کو سنڈیاں بھی لگ جائیں تو بہت کم اناج کا نقصان ہوتاہے۔ جی سی یو کی پیٹنٹ نینوکھاد صحت مند اناج پیدا کرنے اور فصل بڑھانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ جی سی یو نے اسے گرین ماحول کے انقلاب سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت کم خوراک ضائع ہوتی ہے اور مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوتاہے۔

پاکستانی پیٹنٹ سے کوئی کاروباری مفاد حاصل نہیں کیا گیا۔ لہٰذا سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیا ہمارے محققین اور سائنسدان ایسی کوئی مفید اور بامعنی تحقیق کر رہے ہیں جو پاکستان کے حقیقی مسائل کا حل پیش کرے ؟

ایچ ای سی چئیرمین ڈاکٹر مختار احمد اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کیلئے بڑے سماجی معاشی مقاصد کو سامنے رکھ کر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ معیار کی تحقیق اور نئے علوم کی تعلیم دی جاسکتی ہے۔

ایچ ای سی کے چیئرمین یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 2014ء میں یونیورسٹیوں نے 12ہزار تحقیقی مقالے دئیے ، ان میں سے 8163 مقالے مئوقر جرائد میں شائع ہوئے جنہیں سراہا گیا انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ طلباء کی زیادہ تعداد بھی تحقیقی کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

تاہم اب ایچ ای سی چند یونیورسٹیوں پر توجہ دے رہا ہے اور انہیں اعلیٰ کارکردگی کے مرکز میں بدل رہا ہے۔ ڈاکٹر احمد کہتے ہیں کہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ فراہم کرنے کیلئے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ پہلے یہ پروگرام سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور سماجی علوم کے کوٹہ پر مبنی تھا لیکن اب تمام صوبوں میں مختلف مضامین میں اساتذہ کی کی ضرورت کے مطابق دیا جاتاہے۔


khalid khatak

خالد خٹک ایک دہائی سے تعلیم پر رپورٹنگ کر رہے ہیں اور وہ صحافتی حلقوں میں تعلیم پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں۔وہ پاکستان کے انگریزی اخبار دی نیوز سے وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *