ہائر ایجوکیشن کمیشن کی گڈ گورننس 2016ء رپورٹ جاری
- January 4, 2017 6:27 pm PST
اسلام آباد
اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معیار اور گورننس کے مسائل پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی اپنی حکمت عملی کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) آف پاکستان نے ملک کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کو مزید مضبوط و مستحکم کرنے کے لیے سال 2016 ءمیں کئی نئے اقدامات اٹھائے ۔ ایچ ای سی نے 171 یونیورسٹیوں کے 293 پی ایچ ڈی پروگرامز اور 57 ایم فل پروگرامز پر نظر ثانی کی ۔ پس ، مختلف یونیورسٹیوں کے 31 پی ایچ ڈی اور 26 ایم فل پروگرامز کو کم از کم معیاری ضوابط کی بجاآوری نہ کرنے کی وجہ سے بند کر دیا گیا ۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ تعلیمی معیارپر سختی سے عمل درآمد ، غیر معیاری یونیورسٹی پروگرامز کا خاتمہ ، سکالر شپس کا ایوارڈ ، کلاﺅڈ ڈیٹا سینٹر کا قیام ، آفس آف ریسرچ اینڈ انوویشن،، ایجوکیشن ٹیسٹنگ کونسل کا آغاز ، نئے کیمپسز کا قیام ، فیکلٹی اور طلباءو طالبات کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔
دو ہزار سولہ میں ایچ ای سی نے پاکستان کے 31 اضلاع کی مختلف یونیورسٹیوں اور ڈگری ایوارڈنگ اداروں کے ذیلی کیمپسز کے قیام کے پہلے مرحلے کا آغاز کیا ۔ منصوبے کا مقصد ان اضلاع میں پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں میں16 نئے کیمپسز کھولناہے جہاں 1000 سے 1500 طلباءو طالبات کی صلاحیت ہے اس کے علاوہ نسبتاً کم آبادی والے اضلاع میں ورچوئل یونیورسٹی کے کیمپسز قائم کئے گئے ۔ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں دیگر 35 اضلاع میں یونیورسٹی کیمپسز قائم کئے جائیں گے ۔
اس مرحلے میں قائم کئے جانے والے ذیلی کیمپسز میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی ، ہنزہ ، گلگت بلتستان ، یونیورسٹی آف پونچھ ، فارورڈ کہوٹہ ، آزاد جموں و کشمیر ؛یونیورسٹی آف بلوچستان ، پشین ، بلوچستان ، یونیورسٹی آف بلوچستان ، کوئٹہ، ڈیرہ مراد جمالی ، بلوچستان ، لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگری کلچرواٹر اینڈ میرین سائنسز ، اتھل ، بلوچستان ، سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی ، نوشکی ، بلوچستان ؛ یونیورسٹی آف ہنزہ ، بٹگرام ، خیبر پختونخوا ؛ یونیورسٹی آف سوات ، شانگلہ ، خیبر پختونخوا، ؛ گومل یونیورسٹی ، ٹانک ، خیبر پختونخوا ؛ کوہاٹ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، ہنگو ؛ شاہ عبد الطیف یونیورسٹی گھوٹکی و شہداد کوٹ ، سندھ ؛ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی ، سانگھڑ ؛ آئی بی اے ، کشمور ؛ سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ، عمر کوٹ ؛ اور مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ و ٹیکنالوجی ، جیکب آباد شامل ہیں ۔ اسی طرح ، ورچوئل یونیورسٹی کے کل 15 کیمپسز قائم کئے جائیں گے ، جن میں گلگت بلتستان میں دو ، فاٹا میں ایک ، بلوچستان میں پانچ ، خیبر پختونخوا میں ایک ، پنجاب میں چار اور دو سندھ میں شامل ہیں ۔
اسی سال میں ، ایچ ای سی نے کلاﺅڈ ڈیٹا سنٹر کا افتتاح کیا ، جس کا مقصد یونیوسٹیوں کو سہولت مہیا کرنا ہے تاکہ وہ عالمی معیار کے تحقیقی ماحول کا حصہ بن سکیں ۔ سینٹر کا مقصدپیداواری تعمیر و ترقی ، کاروباری عمل کو بڑھانے اور تبدیلی کو تیز کرنا ہے۔ ایچ ای سی کی کلاﺅڈ سروسز کا مقصد پاکستانی یونیورسٹیوں کے مابین کارکردگی ، پیداواری ترقی اور باہمی اشتراک کو بڑھانا اور ایک بہتر آئی ٹی ڈھانچے کو بروئے کار لا کر لاگت کو کم کرنا ہے ۔ یہ ڈیٹا سینٹر ، ورچوئل ڈیٹا سینٹرز ، ورچوئل ڈیسک ٹاپ انفراسٹرکچر ، سیف کیمپس سنٹرل سلوشن اینڈ سنٹرل سرویلانس ، یونیفائیڈ کمیونیکیشن اینڈ شیئرڈ سروسز ، سٹوریج بطور سروس اور ٹریننگ بطور سروس جیسی خدمات فراہم کرتا ہے ۔
ایچ ای سی نے ایجوکیشن ٹیسٹنگ کونسل کے نام سے پاکستان کے پہلے سرکاری ٹیسٹنگ ادارے کا آغاز کیا تاکہ یونیورسٹی داخلوں کے لیے آزاد اور معیاری امتحانات کا انعقاد کیا جا سکے ۔پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے خواہاں تمام طلباءو طالبات کا امتحان ای ٹی سی بلا معاوضہ لے گی ۔ یہ امتحان سال میں دو بار منعقد کیا جائے گا اور اس کے نتائج دو سال کے لیے موثر ہوںگے ۔
سال 2016 میں ، پاکستان برکس ممالک (برازیل ، روس ، انڈیا اور چین ) کے مقابلے میں زیادہ ملاحظہ کئے جانے والے پیپرز کے سب سے زیادہ تناسب کے ساتھ ابھرا ہے ۔ تھامس ریوٹرز کی طرف سے جاری ایک رپورٹ ” پاکستان : دیوار میں ایک اور اینٹ “ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے آر اینڈ ڈی ماحول کو کافی معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ پُر اثرتحقیق متاثر نہیں ہوئی۔
اسی طرح 2006 ءمیں 2000 مضامین اور 2015 ءمیں 9000 سے زائد مضامین سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی سائنسی پیداوار میںگزشتہ دہائی میںچار گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس عرصے کے دوران ، پاکستانی مصنفین کی طرف سے لکھے گئے مضامین کے پیپرز کو 10گنا زیادہ تعداد میں ملاحظہ کیا گیا ، جو 2006 میں 9 مضامین اور 2015 میں 98 مضامین پر مشتمل ہے ۔
سال 2006 ءسے 2015 ءکے دوران پاکستانی دستاویزات ملاحظہ کرنے کی شرح تمام شائع دستاویزات کے 62.27فیصد تھی جبکہ تمام برکس ممالک کی طرف سے شائع دستاویزات کی یہ شرح 59.73فیصدرہی ۔ ” ملاحظہ کی گئی شائع دستاویزات کی شرح سے اس ابتدائی تاثر کا پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنی پر اثر ہیں “ ۔
ایچ ای سی کو سال 2006 سے اب تک 198 ادبی سرقہ شکایات موصول ہوئیں ، جن میں 160 مقدمات کو حتمی شکل دی جا چکی ہے ؛ 90 شکایات غلط ثابت ہو ئیں ، جبکہ 38 فکیلٹی اراکین کو بلیک لسٹ کیا گیا ۔ تقریباً 38 مقدمات زیر عمل ہیں اور چھ مقدمات زیر سماعت ہیں ۔
نیا بنایا گیا ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ فنڈ ، جو 2.91 بلین روپے کی مالیت کا ایک منصوبہ ہے اور یہ پانچ سال کے عرصے کے لیے ہے اور یہ 200 تجاویز کا احاطہ کرے گا ۔ اس کے ترجیحی شعبوں میں آئی ٹی / کمپیوٹرز ، مائیکرو الیکٹرونکس ، بائیو ٹیکنالوجی ، مٹیریل سائنسز ، ٹیلی کمیونیکیشن اور ربوٹکس شامل ہیں ۔ فنڈ کا مقصد مسائل بنیادی حل کے لیے نمونہ جات کو فروغ دینا ہے ۔ پہلے سال کا حدف یونیورسٹی اور انڈسٹری منصوبوں کی طرف سے 50 مشترکہ تجاویزہوں گی ۔
ٹیکنالوجی کے فروغ اور ٹرانسفر کے لیے دیگر کئی اقدامات کے علاوہ ، ایچ ای سی ہوواوے ٹیکنالوجیز کمپنی لمیٹڈ کے ساتھ ایک سٹریٹیجک پارٹنر شپ میں داخل ہوا ہے اور تحقیقی اور ترقیاتی اقدامات کے ذریعے اشتراکیت کو بڑھانے کے ایک مفاہمت کی دستاویز پر دستخط کئے ہیں جس کا مقصد پاکستان میں ٹیکنالوجیز کی مشترکہ ترقی کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا فروغ اور حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔
انسانی وسائل کی ترقی کے لیے اپنے غیر متزلزل عزم کے ساتھ، ایچ ای سی نے پاکستان کو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند انسانی قوت فراہم کرنے کے لیے متعدد اقدامات کئے ہیں ۔ اس مقصدکے لیے ،غیر ملکی اشتراک کے نتیجے میں بنائی گئی مختلف پروگراموں کے تحت پاکستانی طلباءو طالبات کو فراہم کی جانے والی سکالر شپس کے علاوہ اس نے 1036 غیر ملکی اور انڈیجینس سکالرشپ ، 23,000 سے زیادہ نیڈ بیسڈ سکالر شپ اوروزیر اعظم فیس ری امبرسمنٹ سکیم کے تحت 24640 سکالر شپ کی توسیع کی ۔ ایچ ای سی وزیر اعظم لیب ٹاپ سکیم پر بھی عمل در آمد کر رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، فکیلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام، کے تحت فکیلٹی ممبران کی ایک بڑی تعداد کو ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا ۔
دریں اثنا، یونیورسٹیوں میں قابل فکیلٹی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ، ایچ ای سی نے 7142ملین روپے کی لاگت سے ایک نئے فکیلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز بھی کیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت ،دسمبر 2016 میں ای سی این ای سی کی طرف سے منظور شدہ ، پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں سے 2000 فکیلٹی ممبران کو مقامی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلے کے لیے مواقع فراہم کئے جائیں گے ۔ تحقیق کے مقصد کے لیے 6 ماہ سے ایک سال کا عرصہ غیر ملکی یونیورسٹی میں گزارنے کی بھی شرط ہے ۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں قیام کے دوران ، ان کی تحقیق غیر ملکی اور پاکستانی فکیلٹی ممبران کے زیر نگرانی ہو گی ۔
اس سال کے دوران ، فاٹا یونیورسٹی کو آپریشنل کیا گیا اور یونیورسٹی آف گوادر اور یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا ، پاکستان میں بھی کام کا آغاز کیا گیا ۔ علاوہ ازیں ، ریسرچ انوویشن اور کمرشلائزیشن ، اور بزنس انکیوبیشن سنٹرز کے دفاتر کی تعداد میں بھی قابل ذکر طور پر اضافہ ہوا ہے ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی پانچویں رینکنگ برائے سال دو ہزار تیرہ چودہ کا اعلان بھی اس مقصد کے ساتھ کیاگیاکہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جا سکے اور بین الاقوامی سطح پر مسابقت کرنے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جا سکے ۔ رینکنگ مختلف درجہ بندیوں کے تحت کی گئی جن میں انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی ، بزنس ایجوکیشن ، زراعت اور ویٹرنری ، میڈیکل اور آرٹس اور ڈیزائن شامل ہیں ۔
جانچ پرتال کا زیادہ تر معیار ، کوالٹی ایشورنس ، تدریسی معیار ، تحقیق ، فنانس اور سہولیات اور سماجی انضمام / کمیونٹی ڈویلپمنٹ پر مبنی تھا ۔