ایچ ای سی 3 سالوں سے ترقیاتی بجٹ استعمال کرنے میں ناکام؛ آڈٹ رپورٹ

  • August 31, 2017 1:06 pm PST
taleemizavia single page

اسلام آباد

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انتظامی لحاظ سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کمزوریوں کا شکار ہے، کمیشن کے پاس مختص شدہ بجٹ کے استعمال کا باضابطہ اور موثر طریقہ کار موجود نہیں۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، اعلیٰ تعلیم کا نگران ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن ترقیاتی بجٹ کے درست اور موثر استعمال میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2015ء سے 2016ء میں بھی کمیشن اپنے مجموعی بجٹ 1903.127 ملین روپے میں سے صرف 21 فیصد رقم ترقیاتی پراجیکٹس پر خرچ کر پایا۔

اس کے علاوہ، کمیشن نے ترقیاتی کاموں کیلئے جو بجٹ مختص کیا اس کا 65؍ فیصد (1195 ملین روپے) جاری ہی نہیں کیا گیا جبکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ہدایات پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، 2015ء سے 16ء کے دوران اعلیٰ تعلیم کے مختلف منصوبوں کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن 2762.30 ملین روپے جاری کیے گئے لیکن کمیشن ان میں سے صرف 1437.63 ملین روپے ہی خرچ کر پایا، 48 فیصد رقم یعنی 1324.67 ملین روپے خرچ نہ ہو سکے جس کے باعث ترقیاتی اہداف کا حصول ممکن نہ ہو سکا۔

ماہرین کے مطابق یہ ترقیاتی فنڈ ایچ ای سی کے مختلف پروگرامز، جامعات میں سہولتوں، اکیڈمک بلاکس، ہاسٹلوں، لیبارٹریز کی تعمی، نئے کیمپسز کے قیام اور دیگر اہم منصوبہ جات کیلئے جاری کیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق آڈٹ رپورٹ کمیشن کی نگرانی کے نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتی ہے، ان ہی خامیوں کی وجہ سے فنڈز کا ایک بڑا حصہ خرچ نہیں کیا جا سکا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمیشن کے متعلق تین آڈٹ رپورٹس کو تاحال پبلک اکائونٹس کمیٹی میں زیر بحث نہیں لایا جا سکا، 2014-15ء کی رپورٹ کے مطابق کمیشن کی جانب سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے صرف 35 فیصد احکامات پر عمل کیا گیا جبکہ باقی ہدایات نظر انداز کر دی گئیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی جانب سے حالیہ جاری کردہ عالمی مسابقتی رپورٹ 2016-17ء کے مطابق گزشتہ سال کی طرح رواں سال بھی پاکستان اعلیٰ تعلیم، تربیت اور تخلیقی اختراع کے میدان میں جنوبی ایشیا اور مسلم ممالک سے پیچھے رہ گیا۔

ورلڈ اکنا مک فورم کی جانب سے 138 ممالک کی جائزہ رپورٹ کے مطا بق پاکستان نے اعلیٰ تعلیم او ر تربیت کے شعبہ جات میں 7؍ میں سے صرف 2.91 اسکور حاصل کرکے مجمو عی طور 123ویں پوزیشن زیشن حا صل کی۔

اس کے برعکس بھارت نے 81، بنگلادیش 118، سری لنکا 68، ترکی 50، سعودی عرب 46، نیپال 113، چین 54، انڈو نیشیا 63، لبنان 66، ملا ئیشیا 41، اور ایران نے 60ویں پوزیشن حاصل کی۔

تخلیقی اختراع میں پاکستان کی 75ویں پو زیشن کے برعکس بھارت نے 29، سری لنکا 43، ترکی 71، سعودی عرب 42، چین 30، انڈو نیشیا 31، لبنان 58 اور ملا ئیشیا نے 22ویں پوزیشن حاصل کی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے متعدد بین الاقوامی ادارے مایوس کن رپورٹ پیش کرتے رہے ہیں جیسا کہ معروف ریسرچ یونیورسٹیز کے گلوبل نیٹ ورک یونیورسٹا 21کی جانب سے سال2016میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ممالک کی فہرست جار ی کی گئی تھی جس کے مطابق ا مریکا، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، برطانیہ اور سویڈن بالترتیب پہلی پانچ پوزیشنزپر ہیں۔

جبکہ ہر سال اربوں روپے مختص اور خرچ کرنے کے باو جود رینکنگ میں پاکستان کا نام و نشان تک نہیں۔ معروف اداروں کیو ایس اور ٹائمز ہا ئر ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ رینکنگ میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ایشیا کی 100سرفہرست اور دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل نہیں ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *