بی اے کے سات مضامین کی درسی کتابیں حساس قرار، سکروٹنی کا فیصلہ

  • December 2, 2017 9:23 pm PST
taleemizavia single page

لاہور: آمنہ مسعود

پنجاب کے سرکاری کالجوں میں پڑھائے جانے والے سات مضامین کی درسی کتب حساس قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلام اور نظریہ پاکستان سے متصادم کتابوں پر پاپندی ،،، درج مواد کو حذف کرنے کا فیصلہ کرلیاگیا۔ اسلامیات، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور سیاسیات کی کتابوں کی سکروٹنی کی جائےگی۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن کی ہدایات پرڈائریکٹوریٹ پبلک انسٹرکشنز کالجز پنجاب نے ڈگری کلاسز کی کتابوں کی سکروٹنی کا فیصلہ کیا ہے۔

کالجوں میں بی اے، بی ایس سی اور ایم اے کی سطح پرپڑھائی جانے والی اسلامیات،مطالعہ پاکستان، تاریخ،ایجوکیشن، سیاسیات، انگریزی اور اُردو کی کتابوں کی سکروٹنی ہوگی۔ نئی پالیسی کے مطابق درسی کتابوں سے اسلام اور نظریہ پاکستان سے متصادم مواد کو حذف کیا جائے گا۔

کتابوں میں ثقافت کے برعکس موجود تصاویر اور مواد بھی حذف کیا جائے گا۔ ڈی پی آئی کالجز نے ڈائریکٹر کالجز کی سربراہی میں تمام ڈویژنز میں کمیٹیاں تشکیل دے دیں۔ پالیسی کے مطابق سکروٹنی کمیٹیاں ڈگری کلاسز کی تمام درسی کتب کی جانچ پڑتال کرے گی۔

اس کمیٹی میں ہر ڈویژن کا ڈائریکٹر کالجز، ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز، متعلقہ مضمون کا ماہر پروفیسر کو شامل کیا گیا ہے۔

کلیئرنس کے بعد ان کتابوں کو کالجوں میں پڑھانے کی اجازت ہوگی۔ کتابوں پر ریویو رپورٹ تمام ڈائریکٹر کالجز ڈی پی آئی کالجز جمع کرانے کے پاپند ہوں گے۔ بی اے، بی ایس سی اور ایم اے کی سطح کی تمام کتابیں محکمہ ہائر ایجوکیشن کی نگرانی میں فائنل ہوں گی۔

ڈی پی آئی کالجز پنجاب کا کہنا ہے کہ کتابوں کی سکروٹنی کا عمل کمیٹیوں کو سُپرد کیا جائے گا اور کمیٹی کتاب کی کلیئرنس کے ساتھ مسودے پر ہر ممبر کے دستخط بھی کرانے کی پاپند ہوگی۔ کمیٹی کی منظور شدہ کتابوں کو ہی کالجوں میں پڑھانے کی اجازت ہوگی۔

پنجاب کے تمام ڈویژنز میں ڈائریکٹر کالجز اور کالجوں کے پرنسپل کو مراسلہ بھی جاری کر دیا گیا ہے یہ مراسلہ سپیشل سیکرٹری محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کی ہدایات پر جاری کیا گیا ہے۔

پنجاب کریکلم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ کو ڈگری اور ایم اے کی کتابوں پر نظر ثانی کا اختیار نہیں ہے۔ بورڈ صرف انٹرمیڈیٹ کی سطح تک کی کتابوں کی مانیٹرنگ کرے گا۔


  1. It is very strange that there will be textbooks at degree level. Textbooks are prepared only for school level education. Such practice will be a hindrance in creative learning.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *