راؤل لیمز کا جنگی ٹینک کے خلاف ویپن آف ماس انسٹرکشن
- November 27, 2016 2:44 pm PST
ظافرہ خالد
اکیسویں صدی جس میں ٹیکنالوجی کو حددرجہ اہمیت حاصل ہے وہاں اس کے منفی اور مثبت اثرات کی پرواہ کیے بغیر ابن آدم اس شعبہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔
درحقیقت ٹیکنالوجی بذات خود کوئی بُری چیز نہیں ہے مگر اس کی اچھائی اور برائی اس کے استعمال پر منحصرہے۔
اگر ہم اس کے مثبت اثرات کا سرسری جائزہ لیں تو اس سے بڑھ کر کچھ نہیں اور اگر اس کے منفی اثرات پر نظر دوڑائیں تو اس سے خطرناک کوئی چیز نہیں۔
علاوہ ازیں اسلحہ اور ہتھیار کا وجود بھی اسی ٹیکنالوجی کا مرہون منت ہے لیکن ان سب سے بڑھ کر یہ ٹیکنالوجی عقلِ انسانی کی پیداوار ہے۔
کس قدر دلچسپ بات ہے کہ خالق بشر نے بنا کسی مذہبی، معاشرتی، قومی، ملکی اور علاقائی تفریق کے، اپنی تخلیق کو بھی شرفِ خالق سے نواز دیا۔
مگرحیف صد حیف کہ وہ بشر جس نے اپنی عقلی اور دماغی صلاحیتوں کی بنا پر اس دنیا کو ٹیکنالوجی کے نام پر بہت سے جدید ہتھیاروں سے متعارف کرایا آج خود انہی ہتھیاروں کی زد میں ہے۔
یہ ہتھیار جو بظاہر تو اس نوعِ انسانی کی حفاظت کے لیے ایجاد کیے گئے ہیں مگر حقیقت میں یہ انہی کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ بن سکتے ہیں۔
آج مغربی دنیا جس نے انہی ہتھیاروں کو استعمال میں لاتے ہوئے پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے۔
جنوبی امریکہ میں موجود ارجنٹینا کے راؤل لیمزآف نامی ایک نوجوان آرٹسٹ نے کار کو ٹینک نما ہتھیار کی شکل میں ڈھال دیا۔ اس کی خاص خوبی یہ تھی کہ یہ ٹینک اپنے اوپر 900 کتابوں کوجگہ دینے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بذات خود ایک لائبریری کی مانند تھا۔
اس ٹینک کو خاص طور پر کتابوں کیلئے بنانے کا مقصد لوگوں میں علمی دلچسپی اور آگہی پیدا کرنا تھا۔
راؤل جو کہ بظاہر لوگوں کی نظر میں ایک سر پھرا اور عجیب و غریب انسان تھا۔ وہ در حقیقت بہت سی تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا۔
اور یہی وجہ تھی کہ اس کے سر پھرے اور انوکھے پن نےایک کار کو علمی ہتھیار کی شکل دے کر اس عالمِ بشر کو لا علمی کی قید سے آزاد کرانے میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔
راؤل کا تیار کردہ یہ ٹینک تباہی کے لیے نہیں ہے بلک راؤل اس ٹینک پر لوگوں میں مفت کتابیں بانٹتا ہے اور اُس کا مقصد صرف علم دوستی پیدا کرنا ہے۔
راؤل نے روایتی ہتھیار اور جنگی ٹینک کے مقابلے پر ویپن آف ماس انسٹرکشن بنا کر جنگی ہھتیار بنانے والی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بھی پیغام دیا ہے۔
کیونکہ ہمیں اپنے ذاتی، قومی، اور مذہبی دائروں سے نکل کر حضرتِ انسان کی ترقی کے لیے راہِ عمل میں قدم رکھنا ہے اور اس راہِ عمل میں قدم جمانے سے قبل ہمیں اٌن نظریات کو سامنے لانا ہے جو ایک منفرد سوچ پرمبنی ہوں اور وہ سوچ علم و اۤگہی سے جنم لیتی ہے اور علم و اۤگہی کتابوں کا خاصہ ہے۔
راؤل کے اردوں کی پختگی کا یہ عالم تھا کہ اس نے نہ صرف اس دچسپ اور دلکش ایجاد کو جنم دیا بلکہ خود اس ٹینک کے ذریعے لوگوں کو اپنے ایک خاص ڈرامائ اور مزاحیہ انداز سے متاثر کرتے ہوے کتابوں کو مفت لوگوں میں بانٹنا شروع کر دیا۔
بعد ازیں راؤل کےاس اندازِ انقلاب کو خوب سراہا گیا۔ اس نوجوان کا مقصد بلخصوص بچوں اور نوجوان طبقے کو کسی ایک شعبہء زندگی سے متعلق آگاہ کرنا نہیں تھا بلکہ اس نے انہں مختلف شعبہء زندگی مثلاؔ سیاست، ثقافت، ادب اور سائنس کی طرف راغب کیا تاکہ لوگ مختلف زاویوں سے نہ صرف اپنی زندگی کا بغور جائزہ لے سکیں بلکہ بوقتِ ضرورت بدل بھی سکیں۔
جیسا کہ بقول راؤل
“My missions are very dangerous; I attack people in a very fun way.”