ناکام طالب علم کی دلخراش آپ بیتی

  • October 29, 2016 2:45 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

جی ہاں، میں بطور طالب علم کے ناکام رہا۔ میں نے کسی امتحان میں نہ کوئی انعام لیا، نہ کبھی کوئی وظیفہ پایا، میں کھچ گھسیٹ کر بی۔ اے تک پہنچ تو گیا مگر میرا نام کبھی سکول اور کالج کی تعریفی رپورٹوں میں نہ آسکا۔ میں نے بعض جماعتوں میں ایک ایک کے بجائے دو دو برس لگا دیے، لیکن وہ نیک نامی جس سے والدین کے دل کھلتے ہیں، میرے مقدر میں نہ تھی۔

میرا تعلق طالب علموں کے اُس جانے پہچانے گروہ سے تھا جو ہمیشہ جماعت کے پیچھے بنچوں پر اپنی نشست بناتے ہیں اور اُستاد سے شاباش کا لفظ کبھی نہیں سُنتے۔ طالب علموں کا یہ بے زبان گروہ ہر روز اپنے خلاف بہت کچھ سنتا ہے اور خاموشی سے سر جھکا دیتا ہے۔

لیکن ناکام طالب علم کی زبان اگر کبھی کُھل سکتی تو مایوسی اور محرومی کے کتنے افسانے زندگی کا جامہ پہن لیتے، شکوہ و شکایت کے کتنے ہی ایسے دفتر کُھلتے کہ ملک کے اہل تدبیر اور قوم کے راست رُو اپنی گردنیں جُھکا دیتے۔

مگر ناکام طالب علم کی زبان کبھی کُھلتی، وہ اپنے حق میں کبھی آواز نہیں اُٹھاتا۔ قوم کے راست رُو اُسے ایک لاعلاج انسان سمجھ کر مطمئن رہتے ہیں۔ ملک کے اہل تدبیر اس یقین میں مگن ہیں کہ یہ پھسڈی شخص اُسی اندھیرے میں بھٹک رہا ہے جس سے باہر نکلنے کے لیے اس کے پاؤں کبھی حرکت میں نہیں آتے۔

چلیے میں آپ کی خاطر، اور قوم کے روحانی اطمینان کی خاطر، یہ مانے لیتا ہوں کہ سب قصور میرا ہے۔ اس کے بعد آپ شاید مجھے ایک سوال کرنے کا حق دین جس کا جواب مجھے آج تک نہیں مل سکا۔

میں خود کچھ ایسا قابل آدمی نہیں ہوں کہ مشکل سوالوں کا جواب دے سکوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ناکام طالب علم انسان کی کوئی نئی قسم ہے جو کوشش کرنے سے دور بھاگتی ہے۔

جس کی فطرت میں نئی باتیں سیکھنے کے لیے کوئی تڑپ نہیں، جسے ترقی سے نفرت ہے؟ میرا اپنا دل کہتا ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ میں نے کبھی کوئی چھوٹا بچہ یا لڑکا ایسا نہیں دیکھا جس کی طبیعت میں جستجو کا مادہ نہ ہو، نہ کوئی ایسا آدمی میری سمجھ میں آسکتا ہے جو اپنی زندگی کو بہتر بنانا نہ چاہتا ہو۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلے پہل سکول گیا تو میں نے بڑے شوق سے نئی یونیفارم پہنی تھی اور جی میں یہ ٹھانی تھی کہ میں اچھا لڑکا بنوں گا۔ ہمارے ماسٹر صاحب ہمارے قصبے کے رہنے والے نہ تھے، پاس کے ایک گاؤں سے آتے تھے۔ بڑے اچھے آدمی تھے، پہاڑے اُنہیں خوب یاد تھے۔ ہمیں اپنے گھر کی سب باتیں بھی سنا دیا کرتے تھے۔ گو لکھائی پڑھائی کا کام زیادہ نہیں کراتے تھے مگر پہاڑے خوب سُنتے تھے۔ پوری جماعت لہک لہک کر پہاڑے گاتی تھی اور ماسٹر صاحب سو جاتے تھے۔

کبھی کبھی اُن کی آنکھ کھلتی تو وہ لڑکے پکڑے جاتے جو پہاڑے سنانے کے بجائے کسی اور کام میں لگ جاتے تھے۔ اُن کی خوب مرمت ہوتی، خود مجھ پر کئی مرتبہ ماسٹر صاحب کا بید اُٹھا۔ پہاڑے تو اب بڑی حد تک بھول چکا ہوں مگر اُنگلیوں پر جو نیل پڑ جاتے تھے وہ آج تک یاد ہیں۔

لیکن اس یاد میں کوئی غصہ شامل نہیں ہے پٹنے کے باوجود ہمیں ماسٹر صاحب پر کبھی غصہ نہ آتا تھا۔ دراصل ماسٹر صاحب تھے بڑے ہمدرد۔ سالانہ امتحان میں بہت سے لڑکے فیل ہوگئے تو ماسٹر صاحب نے اکثروں کو پاس کرا دیا۔

میں اُن خوش نصیبوں میں نہ تھا ماسٹر صاحب نے میری رونی صورت دیکھی تو کہا؛ اچھا بھئی تمہیں بھی پاس کرادیتے ہیں، یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔ تھوڑی دیر بعد واپس ہوئے تو یہ خوش خبری لائے کہ مجھے بھی اگلی جماعت میں ترقی مل گئی۔

اپنی تعریف اپنے مُنہ کرنا اچھا نہیں ہوتا، لیکن یہ واقعہ کہ ہم لوگوں نے، خواہ ہم لائق تھے یا نالائق، اپنے اُستادوں کی بڑی خدمت کی۔ ہمارے اُستادوں کی تنخواہیں کم تھیں، گھر کے کام کاج کے لیے نوکر نہ رکھ سکتے تھے۔ اس لیے مجبورا یہ خدمت ہم سے لیتے تھے۔ ہم خوشی خوشی یہ سب کام کرتے تھے۔ سکول کے وقت کے بعد فرصت کا اچھا خاصا حصہ اسی خدمت میں کٹتا تھا۔

جب میں نوویں جماعت میں پہنچا تو عربی کی چوتھی کتاب پڑھنی شروع کی۔ عربی کے مولوی صاحب کی تنخواہ صرف پندرہ روپے تھی۔ وہ بیچارے عیال دار آدمی تھے بھلا پندرہ روپے میں کیا گزر ہوتی۔ اُنہوں نے معلمی کے ساتھ ساتھ کچھ اور کام بھی لگا رکھے تھے۔ چنانچہ طبابت بھی کرتے تھے۔ بارہا اُن کے مریض سبق کے دوران نبض دکھانے کے لیے بھی آتے، اس میں بڑا لطف رہتا۔

مریض اور معالج کے مکالمے کو ہم لوگ بڑی دل چسپی سے سنتے، میں اپنی نالائقی کا اعتراف پہلے کر چکا ہوں، لیکن اس اعتراف کے باوجود یہ کہوں گا کہ کچھ ایسا کُند ذہن بھی نہیں ہوں۔

عربی تو جو سیکھی سو سیکھی لیکن لعوق سپستان اور جوارش جالینوس کا وہ چرچا سنا کہ نوویں جماعت پاس کر کے نکلا تو نیم حکیم بن چکا تھا۔ مولوی صاحب کو عربی آتی تھی یا نہیں، یہ وہ شخص کہے جو خود عربی جانتا ہو۔ میرے بعض ہم جماعت مولوی صاحب کو شرارت سے تنگ کرتے تھے۔

ایک بار سبق میں ” ظلمت” کا لفظ آیا۔ مولوی صاحب نے اس کے معنی بتائے “مرغی”۔ کسی نے کہا؛ مگر مولوی صاحب! لغت میں اس لفظ کے معنی لکھے ہیں “اندھیرا”۔ اس پر مولوی صاحب گھبرائے نہیں بلکہ مسکرائے اور ہم اُن کی حاضر جوابی پر عش عش کرنے لگے جب اُنہوں نے فرمایا؛

واہ رے پگلے، یہ کیا بات کہہ دی! اندھیرا درست ہے لیکن اس لفط کے معنی مرغی بھی آئے ہیں۔ کبھی گھر کے صحن میں مرغی کو دیکھا نہیں کہ کس طرح اپنے بچوں کو پیچھے لیے لیے پھرتی ہے؟ مگر آسمان پر چیل منڈلا رہی ہے وہ جھپٹ کر نیچے اُتری، مرغی نے بچوں کو چھپانے کے لیے اپنے پر پھیلا دیے۔

صحن میں ہر طرف دھوپ ہے مگر مرغی کے پروں کے نیچے کیا ہے؟ اندھیرا ! سو ظلمت کے معنی اندھیرا بھی آئے ہیں اور مرغی بھی۔ یہ ہے خلاصہ عربی زبان کے ساتھ میرے تجربات کا۔

انگریزی کے متعلق البتہ میری نالائقی مسلم ہے، مجھے افسوس صرف یہ ہے کہ اس معاملے میں میری نااہلی کے ساتھ میری بدقسمتی بھی آشامل ہوئی۔ انٹرنس کا امتحان تو جیسے کیسے پاس کر لیا لیکن کالج میں آتے ہی مصیبت بڑھ گئی۔ ہر مضمون میں انگریزی کا دخل یوں تاریخ اور معاشیات کے مضمون میں ہمیں خوب مار پڑی یعنی سوال کا جواب ٹھیک ہے لیکن انگریزی ٹھیک نہیں۔ میرے آدھے نمبر میری ٹوٹی پھوٹی انگریزی کھا جاتی تھی۔

انگریزی کی کلاس میں تو گویا چُپ ہی رہتے ہماری جماعتیں تو ماشاء اللہ 100 سے بھی اُوپر طلباء کی تھی اُستاد اس ہجوم میں کس کس کی خیریت اور مزاج پوچھتا؟ اور پھر رسمی طور پر ہر پانچ منٹ بعد یہ کہہ دینا کہ سمجھ گئے ناں؟

جواب کا انتظار کیے بغیر ہوا کے گھوڑے پر سوار، آگے نکل جاتے تھے۔

اُن دنوں میرا اور میرے ہم مشرب طالب علموں کا دستور یہ تھا کہ مضمون کو سمجھے بوُجھے بغیر اپنی کتابوں کے صفحے کے صفحے رٹ لیتے تھے۔ بی اے تک آتے آتے ہمارا یہ عقیدہ راسخ ہوگیا کہ قانون قدرت یہی ہے کہ دُنیا کا ہر علم انگریزی زبان میں ہو۔ اور مجھے تو یقین ہے کہ رٹنے کے بغیر امتحان میں کامیاب ہونا اچھے طالب علم کے لیے بھی ممکن نہیں۔

کسی امتحان کا پرچہ اُٹھا کر دیکھ لیجیے، آدھے سے زیادہ سوالات ایسے ہوں گے جو ہماری علمی واقفیت کا نہیں، محض حافظے کا امتحان لیتے ہیں۔ بلکہ مجھے تو کبھی کبھی یہ شہبہ ہونے لگتا ہے کہ امتحان میں کامیاب ہونا قابلیت کا ثبوت ہے بھی یا نہیں؟ میرے نزدیک علم حاصل کرنا اور چیز ہے اور امتحان پاس کرنے کا گُر جاننا اور چیز۔

میں ایک ناکام طالب علم، اس لیے میری رائے مشتبہ سمجھی جائے۔

طالب علم جب انٹرنس پاس کرکے کالج میں پہنچتا ہے تو وہ قطعا بے خبر ہوتا ہے کہ فلسفہ کیا بلا ہے، معاشیات کا کیا موضوع ہے اور سائنس کی راہ میں کیسے کیسے سخت مقام آتے ہیں۔ اس ناواقفیت کے عالم میں وہ تقدیر کی بازی لگاتا ہے۔ کوئی نہیں جو اُس کی صیحح رہنمائی کرے، کوئی نہیں جو اس کی طبیعت اور رجحان کا جائزہ لے اور بتائے کہ تمہارے لیے فلاں راستہ درست ہوگا اور فلاں غلط۔

میں نے جو عرض کیا وہ جگ بیتی نہیں، آپ بیتی ہے۔ آج اس عمر کو پہنچنے کے بعد مجھے معلوم ہے کہ انٹرنس پاس کرنے کے بعد مجھے دراصل کیا کرنا چاہیے تھا۔ کاش اُس وقت مجھے کوئی سمجھا دیتا کہ کالج کے سبق رٹنے کے علاوہ تمہارے لیے ایجاد و اختراع، خدمت اور ادائے فرض کے وسیع میدان پھیلے ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی ایک مشین ہے، ہم اس کے لیے انسان نہیں، اجناس ہیں۔ اس مشین کے کچھ پُرزے ہمیں امتحانوں کے دُھروں کے درمیان رکھ کر پیستے ہیں، کُچھ اور پُرزے ہمیں چکر دے کر ایک خاص نقطے پر لاتے ہیں اور پھر ایک ٹھپہ لگا کر ہمیں باہر دھکیل دیتے ہیں۔

ہمارے اُستادوں کو خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے نام کیا تھے، ہماری طبیعتوں کا رنگ کیا تھا، اور خبر ہو بھی تو کیونکر؟ یک انار و صد بیمار کا معاملہ ہے۔ کسی کالج کے کمروں پر جاکر نظر ڈالیے۔ بارہا یہ کمرے آپ کو طالب علموں سے اس طرح بھرے ہوئے ملیں گے کہ آپ کو تعجب ہوگا اتنی سی جگہ میں اتنے آدمی کس طرح سما گئے۔ایسے کمروں میں اُستاد پڑھانے کے بجائے صرف تقریر کرتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ نالائق شاگرد بھی کسی حد تک اصلاح پذیر ہے۔ بشرطیکہ اُستاد اُس پر ویسی ہی توجہ کرے جیسی انسان، انسان پر کرتا ہے۔ طالب علم کی توجہ اس لیے منتشر رہتی ہے کہ اُسے اُستاد سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہوتا، توجہ کا انتشار نالائقی کی جڑ ہے۔

لیکن یونیورسٹی کی مشین کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔ ہمارے اُستاد کسی اور ہی عالم سے ہم کو دیکھتے ہیں جس طرح قید خانے کا داروغہ قیدیوں کو اُن کے نمبروں سے پہچانتا ہے، اسی طرح وہ بھی سال سال دو دو سال ہماری حاضری لیتے ہوئے ہمارے نام نہیں، ہمارے نمبر پکارتے ہیں اور بعد کی زندگی میں اگر کبھی ملاقات ہوجائے اور ہمیں پہچان لیں تو اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے؛

ہیلو رول نمبر چھ سو نوے۔

یہ مضمون حمید اللہ خان مرحوم کی یادوں سے مدد لے کر لکھا گیا ہے۔


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *