ہماری درس گاہوں‌ میں شدت پسندی کی بنیادیں

  • April 15, 2019 12:41 pm PST
taleemizavia single page

آمنہ مسعود

قرآن پاک کی پہلی آیت جب نازل ہوئی تو اُس میں اقراءکا حکم دیا گیا، یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن انسانوں کو تعلیم دینے کا داعی ہے۔

کتاب مقدس میں بار بار آیا ہے کہ کیا جاہل اور پڑھے لکھے برابر ہوسکتے ہیں؟ علم کی ضد جہالت ہے اور جہالت اندھیرے کے تصور کے قریب تر ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات جس میں آٹھ ارب انسان بستے ہیں اور کائنات میں پھیلی کروڑوں گلیگسیزسے اس کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

جہالت کو شکست دیتے ہوئے علم کی ترقی کے موجودہ دور میں سائنس کا راج ہوچکا ہے، سائنسی انداز میں معاشروں کی ترقی کے معیارات بنائے جارہے ہیں اور حصول علم کا یہ لامتناہی سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ علم جب آزاد ماحول میں حاصل کیا جاتا ہے تو پھر سماج ترقی کرتا ہے اور انسان تہذیب یافتہ بنتے چلے جاتے ہیں۔

علم حاصل کرنے والا طالبعلم جب کمال بلندی تک پہنچتا ہے تو وہ وہاں پہنچ کر اپنے قلم سے بھی سر قلم کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ لیکن جب اس طالبعلم کو جب خود اپنا سر قلم ہونے کا خطرہ ہو تو پھر خوف اس کا مقد ر بنتا ہے ، جبر اس کے سیکھنے کی صلاحیت کو محدود کردیتا ہے۔ طالبعلم آج کل اسی کیفیت کا شکار ہیں، حصول علم کے طلب گار ہیں لیکن خوف کے بادل سر پر منڈلاتے ہیں۔

ریاست ان طلباء کو حوصلہ دیتی ہے اور پھر ان کے لیے تعلیم کے راستوں کو آسان بناتی ہے۔ علم کے دُشمن اور تعلیم سے بیزار گروہوں نے درسگاہوں کو جب نشانہ بنانا شروع کیا تو ان طلباء کے حوصلوں کو شکست دینے کی کوشش ہوئی۔ لیکن علم دوست والدین اور ان کے دلیر بچوں نے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ حصول علم کا راستہ نہیں چھوڑا، یہی شدت پسندوں کی شکست ہے یہ سفر یہیں نہیں رکتا ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ جہالت کو شکست دینا منزل مقصود ہے چاہے۔

اس جہالت کی شکست ہماری قومی فتح ہوگی لیکن سائنسی اُصولوں کی طرح انداز بھی سائنسی اپنانا ہوگا فقط دفاعی حکمت عملی پر ہی انحصار کرنا ناکافی ہوگا۔

یورپ اور مغربی سماج نے تعلیم یافتہ بن کر شدت پسندی کے نظریات و سوچ کی پیدائش کو ہی شکست دے رکھی ہے اگرچے اُن معاشروں میں بے شمار مسائل ہیں کم ازکم انہیں بدامنی اور ذہنی انتشار کا سامنا نہیں ہے. سکولز، کالجوں اور جامعات کے طلباءہماری قوم کا روشن مستقبل ہیںانہیں تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ان کی ذہنی تربیت کرنے کے اقدامات کرنا ان اداروں کا فرض بھی ہے۔

لاہور کے طالبعلم اور یہاں کی درسگاہیں محفوظ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ملک کی باقی درسگاہوں کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

ریاستی ادارے اور حکمرانوں کو طلباءکے ذہنوں پر مستقل خوف پیدا کرنے سے بھی گریز کرنا ہوگا اور انہیں متدلانہ انداز میں تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہوگا تاکہ علم کی تحصیل میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ ماضی کی پسماندہ ذہنیت کو ہم تعلیمی اداروں کے ذریعے سے ہی شکست دے سکتے ہیں اور ہماری درسگاہوں میں سکولوں کی سطح سے ہی اس کا آغاز کرنا ہوگا۔

اُستاد کو صرف درسی کتابیں پڑھانے تک محدود رہنے کی بجائے اپنے بچوں کی شخصیت سازی بھی کرنا ہوگی تاکہ یہ بچے جوان ہوکر ملک کے کارآمد شہری بن سکیں۔ سیاستدانوں کو ہماری ان درسگاہوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو بھی از سرنو مرتب کرنے کے لیے ماہرین تعلیم سے مشاورت کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

امسال یہ عہد کیا جائے کہ شدت پسندی کو بذریعہ نصاب شکست دینے کے لیے نظام تعلیم کو بدلنے کابھی آغاز کیا جائے گا۔ ریاست کا بیانیہ اب اُس دوراہے پر کھڑا ہے جہاں پر ہمیں اپنے طلباءکے ذہنوں میں کسی بھی قسم کی نفرتیں ، کدورتیں اور ابہامات کو پیدا ہونے سے روکنا ہوگا اور اس کا واحد ہتھیار صرف تعلیم ہے۔

آئین کوئی حدیث نہیں ہوتی اسے بدلا بھی جاسکتا ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے، آئین کی اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جو تعلیمی منصوبے بنانے کے اختیارات صوبوں کے حوالے کیے گئے ہیں انہیں واپس وفاق کے حوالے کرنا اشد ضروری ہے۔ صرف اعلیٰ تعلیم کی منصوبہ بندیاں ہی نہیں بلکہ سکولوں اور کالجوں کی سطح پر بھی تعلیمی منصوبوں کو تشکیل دینے کے لیے یونیفارم پالیسی اپنانا ہوگی۔

کو ن سی زبان ذریعہ تعلیم ہوگی اس پر تو اختلافات کیے جاسکتے ہیں مگر اس پر تضادات نہیں ہونے چاہیے کہ نصاب تعلیم ہر صوبے کا اپنا اپنا ہو۔

جب شدت پسندی کی سوچ قومی مسئلہ ہے تو پھر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پالیسیاں بھی تو قومی درجے کی ہوں۔ ہمارے سیاستدان اور اہل اقتدار شدت پسندی کے مسئلے کا حل صرف سیاسی و دفاعی حکمت عملی میں دیکھتے ہیں لیکن تعلیمی حکمت عملی کو دانشور بھی نظرانداز کرتے ہیں اور سیاستدان بھی۔ سماجی عدم مساوات اُس وقت بڑھتی چلی جاتی ہے جب تعلیم میں بھی عدم مساوات ہے۔

درسی کتابیں ہوں یا پھر مطالعہ کی غرض سے چھپنے والی کتابیں ، ہر دو چند کے ذریعے ہماری ذہنی آبیاری ہوتی ہے جو یونیورسٹی میں پہنچ کر پختہ ہوجاتی ہے۔

ہمیں تعلیمی نقطء نظر میں انگریز حکمران لارڈ کرزن ، ولیم بینٹنک کی دو سو سالہ پرانی پالیسی کو جوتے کی نوک پر رکھنا ہوگا جس میں دنیاوی و دینوی تعلیم کے فرق کی بنیاد رکھی گئی.

ظام تعلیم کے ذریعے ہم قومی دھارے کا حصہ بننے کی بجائے تقسیم درتقسیم ہورہے ہیں جو درحقیقت برطانوی انگریز کی پالیسی تھی۔
ہمیں اب شدت پسندی کے بیجوں کو پانی دینے کا سلسلہ ترک کرنا پڑے گا بلکہ ان بیجوں سے پودے اور پھر تناور درختوں کو جڑوں سے کاٹنے کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی، نہ تو یہ مشکل ہے اور نہ ہی ناممکن صرف جراءت اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

شدت پسندی کی آخری حد دہشت گردی ہے جس کی انجام دہی میں سہولت کار بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے ذریعے شدت پسندی کی سوچ کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تو سہولت کار ناپید ہوتے چلے جائیں گے ۔ ریاستی اداروں کو نصاب تعلیم کے ذریعے ایک نیا طرز عمل اختیار کرنا ہوگا، سائنسی اور سماجی علوم کی ترویج لیے ایسی درسی کتب مرتب کی جائیں جس میں نفرت، محرومی، اشتعال انگیزی، مذہبی جذبات کا عمل دخل نہ ہو۔

ماضی کے بے شمار قصوں، کہانیوں اور حقائق پر تبصرے تو لاکھ کیے جاسکتے ہیں مگر یہ سب بے سود ہوگا اگر ہمارے سیاستدانوں کے رویوںمیں تبدیلی نہیں آتی۔ ہماری درسگاہوں میں پڑھنے والے لاکھوں طلباءاس قوم کا اثاثہ ہیں جن پر ان کے والدین نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے جنہوں نے اس وطن کی حفاظت کرنی ہے۔ شدت پسندی کے خلاف لڑنے کی ریاستی پالیسی کے دائرے میں اگر تعلیم کو بھی شامل کر لیا جائے تو پاکستان کا مستقبل پرامن ہوگا ، خوشحال اور روشن ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *