تعلیمی نظام میں ثقافتی اقدار کی اہمیت
- September 21, 2019 8:58 pm PST
مراد علی شاہد
انسانی تمدن وثقافت کے صحت مند ارتقا اور معاشرہ کی ترقی واستحکام کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرہ میں پرورش پانے والے بنی نوع انسان اپنے مشاہدات، تجربات، عقائد، اقدار، ادراک اور معلومات کو نسل آئندہ کے سپرد کر کے جائے۔
ان معلومات کو دیگر انسانوں میں منتقل کرنے کا عمل تعلیم کہلاتا ہے، یہ تعلیم ایک منظم انتظام اور ادارہ جاتی تشکیل کے تحت پھیلائی جاتی ہے. تعلیم ایک ایسی قوت ہے جو انسان کی طبعی میلان، صلاحیتوں، جوہر اور تخلیقی قوتوں کی عکاس ہوتی ہے۔ معاشرتی ارتقا و ترقی اور عمرانی نظریات سے ہی کسی ملک کے تعلیمی معیارات،احیا اور نشوونما کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ تعلیم معاشرہ کی سمت اور نصب العین متعین کرتی ہے۔
تعلیم معاشرہ کو ایسی شاہراہ پر چلا تی ہے جس کے گردونواح میں معاشرتی فلاح وبہبود اور منزل مقصود معاشی ترقی ہو۔ گویا تعلیم کو معاشرہ میں اہم مقام حاصل ہے۔ معاشرے میں فرد یعنی انسان ایک ایسی اکائی ہے جس کی بنیاد پر سماج کا پورا ڈھانچہ استوار ہوتا ہے۔ تعلیم دراصل انسانی رویوں، تمدن اور ثقافت کی ترقی کا دوسرا نام ہے۔
سماج میں علم کی ترسیل زبان، رسم و رواج اور روایات کی بناء پر کی جاتی ہے، ثقافت ایک عنصر ہے اور قومی تعلیمی نظام میں ثقافت کو بھی کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے، ثقافت اقدار کا تحفظ قوموں کی شناخت کی ضمانت ہوتی ہیں، یہ شناخت برقرار رکھنا ہی قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہوتی ہے. تعلیمی نظام میں ذریعہ تعلیم کیا ہوگا؟ سماجی تاریخ کیسے پڑھائی جائے گی؟ ثقافت و تمدن کے کون سے امور زیر بحث لائے جائیں گے؟ یہ سب نصاب تعلیم کے تحت زیر بحث لایا جاتا ہے.
اگرچہ نصاب سازی کرتے ہوئے مختلف بنیادوں جیسے کہ معاشرتی،عمرانی، نفسیاتی اور مذہبی کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن جو اہمیت تعلیمی معیار میں ثقافتی بنیادوں کا ہے وہ کسی اور کی نہیں ہے۔ اس لئے کہ کسی بھی معاشرہ کی پہچان اس کی ثقافت ہی ہوا کرتی ہے جتنی ثقافتی اقدار مضبوط بنیادوں پر استوار ہوں گے معاشرہ اتنا ہی مضبوط دکھائی دیتا ہے۔
جب ایک قوم کی ثقافتی اقدار کم زور پڑ جائیں تو دوسری ثقافت اس قوم پر ہاوی ہوجاتی ہے. ثقافتوں کی یہ تکرار نوآبادیاتی عہد میں شروع ہوئی، برطانوی نوآبادکاروں نے ہندستان میں اپنی روایات، ثقافت، تہذیب اور زبان کو یہاں منتقل کیا اور اس کے لیے نظام تعلیم کا سہارا لیا گیا. اس عہد میں برطانوی نوآبادکاروں نے یہاں کی ثقافتی شناخت کو کم تر ثابت کرنے کے لیے یورپ کی برتر ثقافت کا تصور پیش کیا. اس تصور کو سماج میں رائج کرنے کے لیے یہاں پر اشرافیہ کلاس تیار کی گئی جو بعد میں بیوروکریٹ کلاس بنی.
یورپی ثقافت کو سماج میں سرایت کرنے کے لیے انگریزی زبان و ادب کا سہارا لیا گیا، نصاب میں جو تاریخ پڑھائی گئی، جو نظمیں اور ادب شامل کیا گیا اس کی بنیادیں برطانوی ثقافت سے جُڑی تھیں، یہ عمل رُکا نہیں بلکہ تقسیم ہند کے بعد یہ طریقہ جاری رہا.
سر سید احمد خان جب برصغیر میں مسلمانوں کے لئے سکول کی بنیاد رکھنے کی سعی کر رہے تھے انگریز لارنس کالج مری 1860 میں قائم کر چکا تھا اسی طرح جب سر سید احمد مسلم ایجوکیشنل کی بنیاد رکھ رہے تھے انگریز نے اسی سال ایچی سن کالج کی بھی بنیاد رکھ دی تھی۔اسی سال بہاولپور میں ایجرٹن کالج کی بنیادیں بھی اٹھا دی گئیں تھی۔
انگریز نوآبادکاروں نے ہندستان میں تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک پھیلاتے رہے. ان اداروں کے توسط سے انگریزوں نے اپنے وفا دار طبقات تیار کیے جن میں جاگیر دار، وڈیرے، نواب اور فیوڈل کلاس شامل ہے. ان کی اولادوں کو انگریزی اداروں سے تعلیم یافتہ ہونے کے بعد حکمران طبقات میں براہ راست شامل کرتے رہے ہیں. اس کے مقابلے پر یہاں کے مقامی افراد مسلمانوں کے لیے ادارے تشکیل کر رہے تھے، انجمن حمایت اسلامیہ ہو یا پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ، ان کے تحت مقامی سطح پر ایسے افراد تیار کیے گئے جن کی سوچ، فکر انگریز راجدھانی کے خلاف تھی اور یہاں پر مزاحمتی فکر پروان چڑھا.
دونوں تعلیمی اداروں میں فرق صرف ثقافتی بنیادوں کا ہے کہ انگریزی میڈیم آج بھی انہیں اصولوں پر قائم ودائم ہیں جو آج سے ایک صدی قبل تھیں جبکہ ہمارے دیگر اداروں نے اپنی ہی بنائی ہوئیں ثقافتی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں دفن کر دیا ہے ہم آدھی چھوڑ کر پوری کے چکر میں اپنے حصے کی آدھی بھی گنوا چکے ہیں۔میری سفارش ہے کہ اگر ہم اپنے نظام تعلیم کو جدید بنیادوں پر استوار کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو بھی بنیاد بنا لیں اور مکمل مضبوطی کے ساتھ اس سے چمٹ جائیں تو آج بھی ہم تعلیمی میدان میں سب کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔