پاکستان میں تعلیم اور آزادی اظہار
- September 25, 2018 8:54 am PST
ڈاکٹر شاہد صدیقی
تعلیم کابنیادی مقصد تبدیلی ہے۔ انفرادی اورسماجی سطح پرتبدیلی۔ تعلیم کا ایک اوراہم مقصد آزادیوں کا حصول ہے۔سوچ کی آزادی‘ اظہار کی آزادی اورانتخاب کی آزادی‘ لیکن بعض اوقات تعلیم جب تقلیدمحض کاسبق دیتی ہے‘ تویہ لوگوں کی سوچ کوسلانے کے کام آتی ہے۔تعلیم کی اس قسم میں طالب علم کوصرف تقلید محض سکھائی جاتی ہے اورانفرادیت‘ جدت پسندی‘ اورتخلیق کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
70کی دہائی میں ایک کتابDeschooling Societyنے تعلیم سے وابستہ افراد کو چونکا دیا۔ کتاب کے مصنف Ivan Illich نے اس تعلیم کوتنقیدکانشانہ بنایا ‘جس کے نتیجے میں ادارہ جاتی سطح پر ایک ہی قسم کی سوچ پروان چڑھائی جاتی ہے اورجس میں انفرادیت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
پالوفریرے(Paulo Freire)نے بھی اپنی کتابThe Pedagogy of Oppressedمیں اس تعلیم کے تصور پر شدید تنقید کی ہے‘ جسے وہ(Banking Model of Education)کہتاہے‘ جس میں استاد شاگرد کے خالی ذہن میں علم انڈیلتا ہے۔ اس ماڈل میں سب سے بڑا مفروضہ یہ ہے کہ شاگرد کاذہن خالی برتن (Empty Vessels) کی طرح ہوتاہے۔
یہی وہ تعلیم کا رجعت پسندانہ تصور ہے‘ جس میں طلباء کوایک سادہ تختی (Clean Slate)سے تشبیہ دی جاتی ہے اوراستاد کو علم کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ جدید تحقیق سے ان دونوں مفروضوں کی نفی ہوتی ہے۔
ہمارے زیادہ تر سکولوں میں طالب علموں کوکلاس میں سوال کرنے پر اساتذہ کے غیض وغضب کاسامنا کرناپڑتاہے ۔یوں ابتدائی جماعتوں میں ہی طلباء اس بات کواچھی طرح جان لیتے ہیں کہ عافیت اسی میں ہے کہ کلاس میں خاموش بیٹھاجائے اورٹیچر کی کسی بات سے اختلاف نہ کیاجائے۔ ہمارا نظام امتحان بھی طلباء کی تخلیقی صلاحیتوں کوجانچنے کے بجائے ان کی یادداشت کوپرکھتا ہے۔
امتحانی سوالات کی اکثریت کیا(What) ٹائپ سولات ہوتے ہیں۔ کیوں(Why) اورکیسے(How)قسم کے سوالات کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔یوں ہمارا نظام امتحان طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی بجائے صرف ان کی یادداشت کاپیمانہ بن جاتاہے۔
یوں ہمارے زیادہ تر سکولوں میں طلباء کوتقلید محض سکھائی جاتی ہے۔
اگرکوئی طالب علم گھڑے گھڑائے جواب سے ہٹ کرچیزوں کی تفہیم کرے‘ توامتحان میں اس کی کامیابی مشکوک ہوجاتی ہے۔کسی خیال کوچیلنج کرنا خوبی کی بجائے ایک جُرم تصور کیاجاتاہے۔ بقول اقبالؔ:
گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا للہ
جدید تحقیق نے یہ ثابت کردی ہے کہ بچے کاذہن خالی سلیٹ کی طرح نہیں ہوتا‘ بلکہ ابتدائی عمر سے ہی ان کے ذہن کے پردے پرتصورات اورعقائق کا ظہور ہوتاہے۔ تعلیمی ادارے جن کافرض منصبی طلباء کے خیالات کو جلا بخشنا ہوتاہے ۔ان کی تحقیقی صلاحیتوں کی آبیاری کرناہوتاہے اور ان کے کردار کو اجالنا ہوتاہے۔
وہی تحقیقی ادارے ان کو ایک خاص ڈگرکے تابع کردیتے ہیں‘ جس میں انفرادی سوچ ‘ انفرادی تصور‘ اورانفرادی افتادطبع کو نہ صرف نظرانداز کیاجاتاہے‘ بلکہ اس کی سزابھی دی جاتی ہے۔
مجھے (Dead Poets Society)فلم یاد آرہی ہے‘ جس میں انگریزی اد ب کااستاد ایک پبلک سکول میں جدید طریقہ تدریس کومتعارف کراتا ہے‘ جس کامقصد طلباء میں تخلیقی صلاحیتوں کواجاگر کرنا ہوتا ہے۔ وہ طلباء کی شخصیت کی ہمہ گیری (Holistic Development)کے لیے کلاس سے یا باہرہم نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتاہے‘ لیکن یہی تخلیقی انداز تدریس آخرمیں اس کے سکول کے اخراج کا باعث بن جاتاہے۔
تعلیم کاایک اہم مقصد تخلیقی اذہان کی تشکیل ہے‘ تاکہ طلباء فکرکے نئے زاویوں سے آشنا ہوں اورپٹے پٹائے راستوں کی آرام طلبی کوچھوڑ کرسوچ کی نئی پگڈنڈیاں تلاش کریں۔ یہی جدتِ فکر معاشرے میں بوسیدہ مسائل کے تازہ جواب تلاش کرنے میں مدد گارثابت ہوتی ہے۔ ترقی پذیرممالک کا المیہ یہ ہے کہ ان کے تعلیمی نظام میں Critical Thinkingکی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ طلباء کولکیرکافقیر بنادیاجاتاہے‘ اگرکوئی طالب علم استاد کے خیالات سے اختلاف کی جسارت کرے ‘تواس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ استاد کا کردارطلباء کے ذہنوں پر ان مٹ نقوش چھوڑتاہے۔ استاد کاقول اورفعل طلباء کے لیے ایک مخفی نصاب(Hidden Curriculum)ہوتاہے‘ جوروایتی نصاب سے زیادہ مؤثر ہوتاہے‘ مثلاً :اگرایک استاد کلاس میں خوددیرسے آتاہے‘ توا س کے شاگرد کے لیے وقت کی پابندی نہ کرنا‘ایک عام اورقابل قبول بات ہوگی۔
اساتذہ کے قول اورفعل کایہی تضاد طلباء کے ذہنوں میں انتشار کا باعث بنتاہے۔ قول اورفعل کایہ تضاد تعلیمی اداروں کی سطح پربھی پایاجاتا ہے یہ ادارے کچھ اقدار کے بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں‘ ان اقدار میں ایک ڈسپلن بھی ہے‘ جس کی خاطر انفرادی سوچ اورتخلیقی فکر کوبے رحمی سے کچل دیاجاتا ہے۔
مجھے ایک اورخوبصورت فلمScent of a womanیادآرہی ہے‘ جویار مہربان رئوف کلاسرہ کے توسط سے میں نے دیکھی۔ رئوف کلاسرا کتابوں اورفلموں کاچلتاپھرتا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اخبار میں کالم‘ ٹی وی پر پروگرام کرنے‘ دوستوں کی محفلوں میں شرکت‘ اپنے گائوں جیل کلاسرا کے آئے دن دوروں کے بعد بھی اس کے پاس کتابوں اورفلموں کے لیے وقت کہاں سے آتا ہے۔
Scent of a womanکی کہانی Baird Schoolکی کہانی ہے۔ جہاں ڈسپلن کے نام پر انفرادی Integrityکی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ فلم میں خاصے کی چیز وہ تقریر ہے‘ جو معروف اداکارAl Paciono ڈسپلن کمیٹی کے سامنے کرتاہے اور سکول کی منافقانہ پالیسی کا پردہ چاک کرتاہے۔
کسی بھی معاشرے میں رواداری‘ اختلاف رائے اوربرداشت کی ابتدائی تربیت گھراورسکول سے ہوتی ہے۔ اسی طرح جدتِ فکر اورندرتِ خیال کی کونپلیں بھی ابتدائی سالوں میں پھوٹتی ہیں؛اگرہمارے تعلیمی اداروں میں طلباء کو سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اورنہ ہی اختلاف رائے کی تو انفرادی سوچ اورتخلیق کے سوتے خشک ہوتے جائیں گے۔
معاشرے میں یک رخی سوچ اورعدم برداشت کے مظاہرے عام ہوںگے۔ تبدیلی کے اس عمل میں اساتذہ بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تربیت اساتذہ کے خصوصی کورس کرائے جائیں۔ ان کورسز میںCritical ThinkingاورReflective Practiceکے ماڈیولز ہوں‘ تاکہ اساتذہ کو انفرادی سوچ اورتخلیق کی اہمیت کے ساتھ ساتھ وہ مہارتیں بھی سکھائی جائیں ‘جن کی مددسے وہ طلباء میں وہ اعتماد پیداکرسکیں ‘جوآزادیٔ افکار اورآزادیٔ اظہارکے لیے ضروری ہے۔