ڈاکٹر عبد السلام اورخدائی ذرہ کی دریافت

  • May 2, 2017 11:27 pm PST
taleemizavia single page

آصف جاوید

حصہ اول

ڈاکٹر عبدالسّلام کا نام کسی تعارّف کا محتاج نہیں۔ سائنس کی دنیا جب بھی اپنے مشاہیر کا ذکر کرے گی تو ان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالسّلام کا ذکر بھی کرے گی۔ ڈاکٹر عبدالسّلام، ایک مسلمان ، پاکستانی سائنسداں ، ریاضی داں اور نظری طبعیات کے جیّد عالم تھے، ڈاکٹر عبدالسّلام نے کائنات میں پائی جانے والی چار بنیادی قوّتوں میں ربط اور یکجائی کا سائنسی نظریہ پیش کیا تھا، جس پراُنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے کمزور نیوکلیائی قوّت اور برقی مقناطیسی قوّت کو ایک ہی قوّت کے دو رخ قرار دینے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ یہ تھیوری پیش کرنے کے دس سال بعد 79ء میں ایک پارٹیکل ایکسلیریٹر میں پروٹان اور اینٹی پروٹان کے ٹکراؤ سے جو نتائج سامنے آئے تھے اس سے ڈاکٹر عبدالسلام کے نظریات کی تصدیق لیبارٹری میں تجرباتی طور پر بھی ہو گئی تھی۔

عبد السلام نے دسمبر 79ء میں ایک اخباری انٹرویو میں اپنی تحقیق کو یوں بیان کیا تھا؛

آج کے موجودہ وقت میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کائنات میں چار بنیادی قوّتیں ہیں، جو اس کائنات کو چلا رہی ہیں۔ ہم نے اب تک کی تحقیق میں جو کیا وہ یہ ہے کہ، یہ قوّتیں چار نہیں، بلکہ صرف تین ہیں۔ یعنی کششِ ثقل کی قوّت، طاقتور نیوکلیائی قوّت، اور کمزور نیوکلیائی قوّت و برقی مقناطیسی یکجائیقوّت ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ آگے چل کر ہم اِن کو مزید کم کرکے صرف دو کردیں گے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہ نظریہ آگے آنے والے تین یا چار سالوں میں مزید تحقیق سے چیک کر لیا جائے گا، پھر دو قوّتوں میں سے بھی صرف ایک قوّت رہِ جائیگی، یہ ابھی ایک تخیل ہے، جس کے لئے ہم کوشش (تحقیق) کریں گے۔ آئن اسٹائن برقی اور مقناطیسی قوّتوں کو یکجا دیکھنا چاہتا تھا۔ اور مقناطیسی قوّت کو کششِ ثقل (تجاذبی قوّت) کے ساتھ یکجا کرنے کی کوششیں کررہا تھا۔

ہم نے آئن اسٹائن سے مکمّل طور پر ایک الگ راستہ اختیار کیا، اور کمزور نیوکلیائی قوّت کو برقی مقناطیسی قوّت کے ساتھ یکجا کردیا۔ اِس مرحلے کے بعد ہم آئن اسٹائن کی طرف لوٹ کر آئیں گے۔

جب ڈاکٹر عبدالسّلام سے سوال کیا گیا کہ آپ تو انتہائی مذہبی انسان ہیں، اِس دریافت کے بعد کیا آپ کا خدا پر ایمان کم ہوا یا بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑا منطقی اور مدلّل جواب دیا۔

یقیناً خدا پر میرا ایمان کم نہیں ہوا، مذہب ایک بنیادی چیز ہے، روحانی چیز ہے انسانی علم، تجربہ اور دلیل کے دائرے سے بڑھ کر ہے ، مذہب سائنس کی دسترس سے ماوراء ہے۔ یہ گمان کرنا کہ سائنسی تخلیقات، انکشافات، اور دریافتیں، مذہب کے بعض عقائد کی تائید کرتے ہیں، ایک مکمّل بے عقلی ہے، سائنس جیسی چھوٹی چیز مذہب کا احاطہ
نہیں کرسکتی ہے ۔ عربی زبان میں سائنس کے معنی علم کے ہیں۔

دینی عالم اور مولوی ہرگز انبیاء کے علم کے وارث نہیں ہیں۔ سائنس دان حقیقت میں انبیاء کے ورثاء ہیں، کیونکہ سائنسدان اپنے علم ، مشاہدے اور تجربات کی بنیاد پر ، خدا کی کائنات، اُس کے کاموں، اور مظاہرِ فطرت ، سے بہت زیادہ گہرائی میں واقف ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسّلام کے علمی کام کا جدید سائنس پر جو قرض ہے، اُس کا اعتراف عہدِ جدید کے عظیم سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب اے بریف ہسٹری آف ٹائم میں کیا ہے۔ سائنسدانوں کے نظریہ وحدت (سائنسی معنوں میں) کے مطابق اوّل اوّل کائنات ایک بند نقطے کی مانند تھی۔

طویل عرصہ گذرنے کے بعد بِگ بینگ دھماکے کے نتیجے میں مادّہ وجود میں آیا۔

سائنسداں ہگز بوسن کے مطابق اس وقت بنیادی ایٹمی ذرّات وجود میں آئے تھے۔ آگے چل کر سائنسدانوں نے اُن میں سے ایک ذرّے کا نام ہگز بوسن رکھ دیا۔ ان بنیادی ذرّات نے ہی مادّے میں کمیت پیدا کی، اور فورا تحلیل ہوگئے ۔

ابتدائی طور پر مادے میں کمیت پیدا ہونے کے نتیجے میں کائنات کی چار معروف قوّتیں نمودار ہوئیں۔کششِ ثقل یعنی تجاذبی قوّت ، برقی مقناطیسی قوّت ، کمزور نیوکلیائی قوّت اور طاقتور نیوکلیائی قوّت۔

ڈاکٹر عبدالسّلام نے اپنے دور کے دو سائنسدانوں گلیشاؤ اور وائن برگ کے ساتھ ان میں سے دو قوّتوں یعنی برقی مقناطیسی قوّت اور کمزور نیوکلیائی قوّت کو نظریاتی طبعیات اور ریاضی کی پیچیدہ مساواتوں کے ذریعے حسابی طور پر ایک ہی قوّت کے دو رُخ ثابت کرکے نوبل انعام حاصل کیا۔

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسّلام نے اِس نظرئیے کی تائید کی تھی، اور اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ کائنات میں پیدا ہونے والی بنیادی قوّتوں کا باعث بننے والے ذرّات کا وجود کسی دن تجربات سے ثابت ہوجائے گا۔

دو ہزار بارہ میں سرن لیبارٹری میں ہونے والے ایک عظیم سائنسی تجربے نے ہگز بوسن نامی گاڈ پارٹیکل کو دریافت کرکے سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا، اور یوں ذرّاتی طبعیات میں وضع ہونے والے سٹینڈرڈ ماڈل کی آخری گمشدہ کڑی کا معمّہ حل ہوگیا، اور ڈاکٹر عبدالسّلام کا پیش کردہ نظریہ تجربے کی کسوٹی پر سچ ثابت ہو کر قانون کی حیثیت اختیار کرگیا۔

مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالسّلام، جو کہ بنیادی طور پر ریاضی اور نظری طبعیات کے جیّد عالم و محقّق تھے، در اصل کائنات کی اساسی قوّتوں کی یکجائی(بمعنی وحدت)اور گاڈ پارٹیکل (ذرّہِ خدائی) کی تلاش کے لئے ، کئے گئے سائنسی کام کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تھے۔

دنیا ئے سائنس جب بھی گلیلیو، نیوٹن، فیراڈے، میکسویل، اور آئن اسٹائن ، پیٹر ہگس، اسٹیفن ہاکنگز کا ذکر کرے گی، ڈاکٹر عبدالسّلام کا ذکر لازمی کرے گی۔ کیونکہ ڈاکٹر عبدالسّلام نے کائنات کی ماہیت اور اسرار و رموز کو سمجھنے کے ایک ہزار سال پہلے البیرونی سے شروع کئے ہوئے کام میں گیلیلیو، نیوٹن ، فیراڈے، ایمپیئر، میکسویل، آئن اسٹائن اور پیٹر ہگز کے بعد دنیائے سائنس کو اپنی تحقیق سے ایک بریک تھرُو دیا تھا، جس پر ان کو نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

عبد السلام کے بعد نظری طبیعاتی سائنس کی دُنیا میں دوسرا بریک تھرو گاڈ پارٹیکل کی دریافت ہے۔ ذرہ خدائی سوئزر لینڈ اور فرانس کی سرحد پربنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدانوں کے تجربات کے نتیجے میں دریافت ہوا۔ جہاں انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کو تلاش کیا جارہا تھا، جسے ہگزبوسن یا خدائی ذرّہ کہا جاتا ہے۔

گاڈ پارٹیکل وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا سب اٹامک ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔سائنسدان گزشتہ پینتالیس برس سے ایسے ذرے کی تلاش میں تھے جس سےیہ واضح ہو سکے کہ مادہ اپنی کمیت کیسے حاصل کرتا ہے۔

ہگز بوسان نامی ذرّے کے وجود کی تصدیق (بمعنی پیش گوئی)ڈاکٹر عبدالسّلام نے اپنی تحقیق میں ریاضی کے پیچیدہ مساواتوں کے حسابی عمل کے ذریعےاُس سٹینڈرڈ ماڈل میں بیان کردی تھی، جو ایک خصوصی سائنسی نظرئیے کے ذریعے تشکیل پایا تھا، جس میں کمزور نیوکلیائی قوّت اور برقی مقناطیسی قوّت کی یکجائی ثابت کی گئی تھی، اس ماڈل میں کمیت گزار ذرّے ہگز بوسن کی پیشگوئی شامل تھی۔

آب آتے ہیں کہ کائنات کی چار بنیادی قوّتیں ، دراصل کیا ہیں؟، ان کی ماہیت اور کیفیت کیاہے؟ میں سادہ زبان میں اس کو اپنے قارئین کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

کائنات میں چار بنیادی قوّتین ظہور فرما ہیں۔ جن میں سے دو قوّتوں سے تو ہمارے اسکول کے طالبعلم بھی بخوبی واقف ہیں۔ یہ قوّتیں عام فہم اور نصاب کا حصّہ ہیں۔ پہلی قوّت ہے تجاذبی قوّت یا ثقلی قوّت، جسے نیوٹن نےثابت کیا تھا کہ سیب زمین پر ہی کیوں گرتا ہے؟

طاقتور نیوکلیائی قوت ایک حکمراں وفاقی قوّت ہے، جیسے وفاق صوبوں کو جوڑ کر رکھتا ہے، بالکل اُس ہی طرح طاقتور نیوکلیائی قوت ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران اور پروٹان کو باہم جوڑ کررکھتی ہے اور انہیں الگ الگ ہوکر مرکزہ کو بَھک سے اُڑ جانے سے روکے رکھتی ہے۔ وہ ذرہ جس کی مدد سے طاقتور نیوکلیائی قوت ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران اور پروٹران پر اثر انداز ہوکر انہیں الگ الگ ہونے سے روکتی ہے میسن یا پائن کہلاتا ہے۔

اس کائنات کی دوسری قوت کو آپ کمزور نیوکلیائی قوت کے بدقسمت نام سے پکارتے ہیں جو بنیادی طور پر دھاتوں کے زوال یا ریڈیوایکٹو انحطاط کا باعث بنتی ہے جسے سادہ الفاظ میں آپ دھاتوں یا مادے کا گلنا سڑنا کہہ سکتے ہیں۔ کمزور قوت کی رینج ایٹم کے مرکزہ میں موجود نیوٹران کے محیط (ایٹم کے نیوکلیئس کے گرد خول)تک محدود ہوتی ہے جو ریڈیوایکٹوانحطاط کے دوران مذکورہ نیوٹران کو الیکٹران، پروٹران اوراینٹی نیوٹرینو جیسے ذرات میں تقسیم کردیتی ہے۔

اس عمل کے دوران نئے وجود میں آنے والے الیکٹران اور اینٹی نیوٹرینو ، مرکزہ سے فرار ہوجاتے ہیں۔ کمزور نیوکلائی قوت جن ذرات کے ذریعے مرکزےمیں موجود نیوٹران پر اثرانداز ہوکر ریڈیوایکٹو انحطاط کا باعث بنتی ہے انہیں ڈبلیو اور زیڈ باسن کہتے ہیں۔

اوپر ہم نے بتا ہی دیا ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت ہمارے لئے بالکل بھی اجنبی نہیں ہے۔ یہ اس کائنات کی ایک جابر قوّت ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ قوت ایٹم یا جوہر میں موجود الیکٹران اور مرکزہ کے مابین باہمی عمل کے ذریعے سے اپنے طاقتور وجود کا اظہار کرتی ہے۔

اس کی رینج لامتناہی ہوتی ہے یعنی روشنی کی رفتار سے حرکت کرتی ہوئی اس نیو کلیائی قوت کی رسائی کائنات کے دوردراز کے کونوں سے جڑی ہوئی ہے۔

بنیادی طور پر برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوت مختلف توانائیوں کی حامل شعاؤں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔جنہیں مختلف لمبائیاں رکھنے والی موجوں یا فرینکیونسیوں کی نسبت سے بیان کیا جاتا ہے۔

نظرآنے والی روشنی برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوت کا محض ایک چھوٹا سا حصّہ ہے۔ ریڈیوویو، مائیکروویو، انفراریڈ، الٹراوائیلیٹ ویو، ایکس ریز اور گاما ریز نظرآنے والی روشنی کے ساتھ ملکر برقی مقناطیسی نیوکلیائی قوّت کی شعاؤں کے مجموعے کی تکمیل کرتی ہیں۔ برقی مقناطیسی نیوکلائی قوت فوٹون جیسے ذرے اور موجوں کے ذریعے اپنی طاقت اور رسائی کا اظہار کرتی ہے۔

آخر میں ہم مختصرا” تجاذبی قوّت یا ثقلی قوّت کا حال بھی بیان کردیتے ہیں۔ کائیات کی چوتھی قوّت کششِ ثقل کو دریافت کرنے کا کریڈٹ نیوٹن کو جاتا ہے۔ کشش ثقل نے اس کائنات میں موجود تمام اجسام کوایک طرح سے ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ آئین سٹائن نے اپنے مشہور زمانہ نظریہ اضافیت میں کشش ثقل کی جن لہروں کی پشین گوئی کی تھی انہیں بھی پچھلے دنوں سائینسی طور پر دریافت کرلیا گیا ہے۔

کشش ثقل جن ذرات کے ذریعے اس پوری کائنات میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھے ہوئے ہے انہیں گریویٹونز کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یاد رہے ایک جوہر یا ایٹم مرکزہ اور الیکٹرانز پر مشتمل ہوتا ہے مرکزہ میں نیوٹران اور پروٹران کی تشکیل کرنے والے ذرات کورکز کہلاتے ہیں اور الیکٹران اور انکے مخالف چارج رکھنے والے نیوٹرینو ذرات کے جس خاندان کی تشکیل کرتے ہیں انہیں لیپ ٹان کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں دریافت ہونے والی ہگزباسن فیلڈ اور اس سے جڑے ہگزباسن ذرات ہمارے چاروں جانب موجود ہیں اور کائنات کی بنیادی قوتوں کو کمیت فراہم کرکے مادی اجسام بنانے میں ہرپل جتے رہتے ہیں۔

ہگزباسن کو آپ ایک ایسی دہلیز سمجھ لیجیے جس سے گزر کر کائنات کی قوتیں مادّی اجسام، مادّہ یا کمیت حاصل کرتی ہیں۔ ہماری خلا کے غالب حصہ پر ڈارک مادّہ اور تاریک توانائی کا قبضہ ہے جن کی حتمی نوعیت جاننے کے لیے ڈاکٹر عبدالسّلام جیسے سائنس دان اپنے کام میں جُتے ہو ئے ہیں۔ جاری ہے


asif javaid

میری بنیادی تعلیم سائنس و انجینئرنگ کی ہی ہے۔ کیمیکل انجینئرنگ میری بنیاد اور اطلاقی کیمیاء میں میری ماسٹرز ڈگری ،گولڈ میڈل کے اعزاز کے ساتھ ہے۔جس کے بعد درس و تدریس و تحقیق سے وابستگی اور صنعتی میدان میں کام کے تجربے نے مجھے سیکھنے اور سمجھنے کے وسیع مواقع فراہم کئے، اسکے علاوہ ساری زندگی کا مطالعہ بھی میرا سرمایہ ہے۔

  1. Nice informative article, but dr abdus salam was not a muslim and here in this article writer called him a muslim and religious personality which is wrong.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *