پاکستان کی تعلیم پر برطانوی راج کی پرچھائیں
- January 27, 2019 8:45 pm PST
اکمل سومرو
نوآبادیاتی (کالونیل) عہد میں حکمران تاریخ اور زمان سے غافل نہیں ہوتے، معاشی و ثقافتی ایجنڈا تاریخ پر دسترس حاصل کرنے اور اس کی تشکیل نو کرنے سے پورا ہوتا ہے اس کے لیے نوآبادکار یعنی کالونیل طاقت مخصوص بیانیہ رائج کرتی ہے۔ کالونیل عہد میں ہندستان کی ثقافت، علم و ادب کو گھٹیا ثابت کرنے کے لیے یورپی ثقافت کی کہانی کا متن پیش کیا گیا جس کے لیے میکالے نے موثر کردار ادا کیا۔
میکالے کے یہ جملے “ یورپ کی کسی اچھی لائبریری کی الماری میں ایک تختے پر رکھی ہوئی کتابیں، ہندوستان اور عرب کے مجموعی سرمایہ علمی پر بھاری ہیں” اور یقین جانیئے مجھے کوئی بھی ایسا مستشرق نہیں ملا جس نے یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی ہو کہ عربی اور سنسکرت کے شعری سرمائے کا عظیم یورپین اقوام کی تخلیقات شعری سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
برطانوی انگریزی ادب، تاریخ و ثقافت کو بطور کبیری بیانیہ یہاں رائج کیا گیا کیونکہ برطانوی انگریزی ادب کے اس قصیدے کے بغیر یورپی ثقافتی بیانیے کا پلاٹ بالکل اُدھورا تھا اس لیے انگریزی زبان کو بذریعہ نصاب رائج کیا گیا جس کے اثرات کی ایک طویل داستان ہے، اس تاریخ کو ریاستی سطح پر کُریدنے سے کیسے بچایا جائے برطانیہ نے اس کے لیے ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی بنا کر پاکستان میں نافذ کر رکھی ہے۔
اسی پالیسی کو پائولو فریرے کے بینکنگ ایجوکیشن سسٹم کے فلسفے کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے یعنی علم کو بطور کموڈیٹی شاگردوں کے ذہنوں میں اُنڈیلا جاتا ہے جن کے پاس پہلے سے علم موجود نہیں ہوتا اور یہ کام وہ اساتذہ کرتے ہیں جن کے پاس مخصوص علم ہوتا ہے۔ اساتذہ اس علم کو طلباء میں یوں منتقل کرتے ہیں کہ اُن میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو۔
پاکستان تقسیم ہند کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا ہے، یہ تقسیم خود دوسری عالمی جنگ کی شکست خوردہ برطانیہ نے کی۔ پاکستان کے قیام کے دیگر محرکات میں کیا کیا تھا یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے لیکن پاکستان پر برطانوی استعمار نے اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے طویل المدت منصوبہ بندی کی۔
میں اپنے کالم میں اس پورے دور کا احاطہ کروں گا لیکن ذرا یاد دہانی کے لیے چند سال پہلے کی تعلیمی مہم پر نظر دوڑاتے ہیں جو پاکستان کے مخصوص میڈیا گروپ پر چلائی گئی۔ Transforming Education in Pakistan کے عنوان کے تحت برطانیہ ڈیفیڈ (Department for International Development) کے ذریعے سے پاکستان کے تعلیمی ڈھانچے کو کنٹرول کیے ہوئے ہے جس کے مقاصد میں واضح طور پر لکھا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں فنڈنگ برطانیہ کی تزویرانی (سٹرٹیجک) سرمایہ کاری ہے اب یہ تعلیم میں تزویرانی سرمایہ کاری کیا ہے؟ تزویراتی سرمایہ کاری میں مخفی مقاصد کیا ہوتے ہیں؟ اس پر ذی شعور پاکستانی کو ضرور سوچنا چاہیے۔
یہ ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن این پاکستان پراجیکٹ 25 اگست 2011ء سے شروع ہوا جس پر برطانیہ نے 25 کروڑ 39 لاکھ 9 ہزار 985 پائونڈز خرچ کیے۔ یہ فنڈز برطانیہ نے اپنے ذیلی اداروں کے ذریعے سے پاکستان میں خرچ کیے جس میں آکسفورڈ پالیسی مینجمنٹ، ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹوز ان کارپوریٹیڈ، کرائون ایجنٹس لمیٹیڈ، ایرنسٹ اینڈ ینگ پاکستان، میر خلیل الرحمن فائونڈیشن اور ادارہ تعلیم و آگہی شامل ہیں۔
برطانیہ نے پنجاب اور پختونخوا میں اس فنڈ کا 39 فیصدایجوکیشن پالیسی کو کنٹرول کرنے کے لیے خرچ کیا ہے۔ ایجوکیشن پالیسی کو برطانوی مفادات کے تابع کرنے کے لیے سب سے پہلے یہ بیانیہ پیش کیا گیا کہ اس خطے کے حکمران عیاشیاں کر رہے تھے تب برطانیہ میں آکسفورڈ کی بنیاد رکھی گئی، اس خطے کا ادب، ثقافت سب پسماندہ اور گھٹیا ہے ہمیں برطانوی استعمار نے مہذب بنایا وغیرہ وغیرہ۔
پاکستان کے مخصوص میڈیا گروپ میں یہ مہم ذرا سوچیئے کے عنوان کے تحت چلائی گئی جس کے لیے برطانیہ نے میر خلیل الرحمن فائونڈیشن کو 69 لاکھ پائونڈز ادا کیے اور حکومت پر دبائو ڈالا گیا کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے لیکن اس مخصوص میڈیا گروپ نے آگے بڑھنا ہے تو ا، ب، پ پر یقین رکھنے کی مہم برطانوی ایماء پر چلائی اور تاریخ کو بطور یورپین کبیری بیانیہ ہم پر مسلط کیا جس کے عوض اس میڈیا گروپ نے برطانیہ سے یہ رقم وصول کی۔