بائیو میٹرک حاضری: کالج اساتذہ کی توہین

  • October 3, 2020 9:49 am PST
taleemizavia single page

جاوید احمد، لاہور

پنجاب کے کالجز میں بائیومیٹرک حاضری سسٹم نامنظور۔ یہ مُطالبہ سامنے آیا ہے کالج اساتذہ کی تنظیم ‘تحریک اساتذہ پنجاب’ کی طرف سے بڑا جائز مُطالبہ ہے۔ کالج کے ایم۔ اے، ایم فل، اور پی۔ایچ ۔ڈی اساتذہ کسی ایسے سسٹم کو منظور کرلیں جس میں ‘میٹرک’ جیسی معمولی تعلیم کا ذکر ہو، اور ‘بائیو ‘جیسے نجس اور ناپاک الفاظ استعمال ہوۓ ہوں۔

ہر گز ایسے سسٹم کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اور پھر حاضری جیسے چھوٹے اور گرے ہوۓ الفاظ بھی استعمال ہوۓ ہوں، حاضری کا لفظ تو طلبہ جیسی مخلوق کیلۓ استعمال ہوتا ہے ، جیسے طلبہ کے میس کی حاضری مہینے کے آخر میں روپوں میں نکالی جاتی ہے، یا پھر کلاس میں مانیٹر ان کی حاضری لگاتا ہے، یا پھر غریب غُرباء بڑے لوگوں اور جاگیرداروں کے ڈیروں پر حاضری دیتے ہیں، یا ہر شام قیدیوں کی حاضری لگائی جاتی ہے، اور آن کو قید کرنے والے چھوٹے عملے اور سپاہیوں کی بھی روز حاضری لگتی ہے۔

اورتو اور آۓ دن عدالتوں میں عدالتی رو بکار آوازیں کستے ہیں کہ فلاں ابن فلاں مُلزم حاضر ہو۔ اُستاد بھلا کوئی حاضر ہونے والی چیز ہیں، قوم کے معماروں کے ساتھ بھلا کوئی مُجرموں جیسا سلوک کرتا ہے کہ آن کی حاضری ہو اور وہ بھی بائیو میٹرک، انتہائی نچلے درجے کی۔

اب کیا یہ دو دو ٹکے کی مشینیں بتائیں گی کہ اُستاد حاضر ہے کہ نہیں ۔ اُستاد پھر اُستاد ہوتا ہے ، وہ اسکول و کالج میں ہو یا باہر۔ کیا یہ دلیل کافی نہیں کہ جب کوئی اُستاد باہر مارکیٹ میں مل جائے تو کیا شاگرد اور جاننے والے ایک دم نہیں کہتے کہ ‘اُستاد جی ‘ کیا حال ہیں آپ کے؟

اُستاد ہر جگہ اور ہر لمحہ اُستاد ہوتا ہے۔ وہ اپنی اُستادی دکھاۓ تب بھی اور نہ دکھاۓ تب بھی۔آستاد کوئی جن تھوڑی ہے کہ ‘حاضر’ ہو۔ اُستاد کی حاضری لگانا پورے معاشرے کی حاضری لگانے کے مُترادف ہے، ہم اساتذہ یہ ظُلم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر اُستادوں کی حاضری لگے گی تو طلبہ میں اور اساتذہ میں کیا فرق رہ جاۓ گا؟ ہمیں مجبور نہ کیا جاۓ کہ ہم طلبہ کی ‘ نا حاضری ‘ کے حق میں کُھل کر سامنے آجائیں۔ ہم نے اب تک طلبہ کی حاضری کو بھی عملاً نافذ نہیں کیا ہے۔

ہم طلبہ کو بھیڑ بکریاں تھوڑی سمجھتے ہیں کہ روز گننے بیٹھ جائیں۔ جب داخلہ دے دیا ہے تو آن پر اعتبار کریں وہ روز آتے ہی ہوں گے؟بھلا بے اعتباری بھی کوئی اچھی چیز ہے۔ اسی لۓ ہمارے معاشرے سے اعتبار اور لحاظ اُٹھتا جارہا ہے۔ اُستاد کا وجود ہی خیر اور برکت کی علامت ہے خواہ یہ سکول و کالج میں موجود ہو یا نہ ہو۔

اُستاد بیچارہ کہاں چلا جاۓ گا، شہر یا گاؤں میں ہی ہوگا، زیادہ سے زیادہ ساتھ والے گاؤں چلا گیا ہوگا، کونسا وہ دوسرے مُلک یا ہندوستان بھاگ گیا ے جو حاضری کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ اُستاد کو اگر عزت نہیں دے سکتےتو اپائنٹ کیوں کرتے ہو؟ کُچھ نہیں دے سکتے تو چُھٹی تو دو۔ اپنی مرضی سے وہ چُھٹی بھی نہ کرے۔ واہ بھئی واہ یہ کیا عزت ہوئی اُستاد کی۔

میں ذاتی طور پر اساتذہ کی تمام قسم کی چُھٹیوں کے حق میں ہوں۔ بلکہ اگر ان کی پکی چُھٹی بھی کروادی جاۓ تو بھی کوئی مُضائقہ نہیں۔ اب آتے ہیں ان کی سال میں ملنے والی چھُٹیوں کی طرف۔ صرف اڑھائی ماہ کی گرمیوں کی چھُٹیاں ، حالانکہ چھ سات ماہ گرمی پڑتی ہے، سردیوں کی اس سے بھی کم بمُشکل پندرہ بیس دن، ہفتہ اتوار کی ِملاکرکُل باون چھُٹیاں بنتی ہیں، عیدین، مُحرم، قومی تہوار، اور امتحانات کی تیاری کے لۓ دی گئی تعطیلات کو ملائیں تو ساٹھ ستر سے زیادہ نہیں بنتیں۔

سال میں صرف پچیس کے قریب کیجول چھُٹیاں ہیں، یعنی کُل بارہ ماہ میں سے ایک مہینے سے بھی کم۔ آپ ایک ایک چُھٹی کا حساب لگالیں پھر بھی سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے درجنوں دن ، پانچ یا چھ درجن دن تو ضرور کالج آنا پڑتا ہے۔ ابھی میں نے ہڑتال اور ہنگامے والے دن شامل نہیں کۓ۔

اساتذہ ہڑتال پر ہوں تو خیر اور بات ہے ، اگر طلبہ ہڑتال پر ہوں تو اساتذہ کو تو آنا پڑتا ہے۔ اور اب یہ موئی سرکار کہتی ہے کہ کالج اساتذہ کی بائیو میترک (روسی زبان میں ایسے ہی لکھا جاۓ گا) حاضری ہوگی۔ حُکومت یہ شوق بھی پورا کرکے دیکھ لے ۔

حُکومت کے اس حربے کو ناکام بنانے کےلۓاساتذہ کو اگر اپنے انگوٹھے بھی کٹوانے پڑے تو وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ سٹاف رومز میں اساتذہ ہوں نہ ہوں ان کے کٹے ہوۓ انگوٹھے ضرور ملیں گے۔اور وہ حکومت کی اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنادیں گے ۔

اساتذہ کے اس جائز مُطالبہ کے حق میں معدوم (معصوم لکھنا تھا) طلبہ و طالبات بھی اپنے اساتذہ کا ساتھ دیں گے، کیونکہ اساتذہ کی حاضری یقینی بنانے کی اس کاوش کی کامیابی کی صورت میں سب سے زیادہ نُقصان تو طلبہ و طالبات کا ہونا ہے۔ بائیو میٹرک حاضری مُردہ بادتحریکِ اساتذہ پنجاب زندہ باد۔

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *