نئے ذہنوں کی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
- February 18, 2018 4:43 pm PST
نذیر ناجی
جس دنیا میں ہم رہتے ہیں‘ اس میں نہ تو رنگ و نسل کی اہمیت ہے۔ نہ سرمائے اور نہ ہی جائیداد کی۔آج کی دنیا نسلی اور مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر‘ معاشی طاقتوں کی محاذ آرائی کے نتیجے کی منتظر ہے۔ پرانے دور کی صف بندیاں‘ اب ماضی کے پرانے قصے کہانیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر آپ گزشتہ صدی کے وسط سے‘ عالمی مقابلہ آرائی کا جائزہ لیں تو مقابلے کے میدانوں میں ان گنت طاقتیں نظر آتی ہیں۔
موجودہ صدی کے آغاز سے ہی‘ مقابلے کے پرانے میدانوں میں اب ریت‘ پہاڑ‘ پانی اور صحرا سب قصہ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ آج کے دور میں مستقبل کے منظر میں‘ جو دو نئی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل آتی دکھائی دے رہی ہیں‘ وہ امریکہ اور چین ہیں۔
امریکہ اگلی جنگ عظیم کے وسط تک پہنچ چکا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ ابھی یہ جنگ شروع ہی ہوئی ہے۔
وائٹ ہائوس نے حالیہ نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی میں‘ چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجیکل مہارت کو امریکی معیشت اور فوجی طاقت کے لیے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ ایشیا کی اس عظیم طاقت نے‘ ٹیکنالوجی کے ابھرتے ہوئے کئی ایک میدانوں میں‘ نمایاں پیش رفت دکھائی ہے۔ پانچ سال پہلے تک چین ٹیکنالوجی کا موجد نہیں تھا بلکہ نقل کرنے والا ملک تھا۔ آج صورت حال مختلف ہے۔
ہو سکتا ہے کہ واشنگٹن کے لیے یہ بات تسلیم کرنا دشوار ہو لیکن چین ٹیکنالوجی کی دوڑ میں تیزی کے ساتھ اس کی برابری کرنا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہائی ٹیک امریکی کمپنیاں‘ جو ایک آزاد معیشت میں کام کرنے والے نجی ادارے ہیں‘ اپنی مسابقت میں ابھرنے والی چینی فرموں اور ان کی پیش رفت کا مقابلہ کر پائیں گی؟
چینی صدر‘ شی چن پنگ نے ٹیکنالوجیکل مہارتوں کو‘ ترقی دینا اپنی اہم ترین ترجیح بنایا ہوا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف چین کو غیر ملکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے کی محتاجی سے نکالنا بلکہ جدت اور اختراع کے میدان میں بھی عالمی لیڈر بنانا ہے۔ کوئی شک نہیںکہ چین اس شعبے میں نمایاں پیش رفت دکھا رہا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران چین نے اہم کامیابیاںحاصل کی ہیں جیسا کہ ہائپر سونک میزائلوں‘ انسانی جینز کی ایڈیٹنگ اور کوانٹم سیٹلائٹ کے تجربات۔ جن ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کو چین بطورِ خاص ترقی دینے کی کوشش میں ہے‘ وہ مصنوعی ذہانت ہے۔ یہ بیجنگ کے علاوہ اس کے حریفوں کے لیے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔
گوگل کے چیف ایگزیکٹو سندر پیچائی نے حال ہی میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت میں جدت‘ بجلی یا آگ سے بھی اہم پیش رفت ہے۔ اگر انہوں نے ضرورت سے زائد ٹیکنالوجی کو فروخت بھی کیا تو اس کا حجم بہت کم ہو گا۔ مصنوعی ذہانت ہمارے دور کی سب سے اہم مہارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ انتہائی اہم چیز ایئر و سپیس اور انٹرنیٹ کی طرح‘ سویلین استعمال میں بھی آ سکتی ہے اور فوجی بھی۔ اس کی وجہ سے دونوں میدانوں میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
سویلین شعبے میں مصنوعی ذہانت کے لامحدود استعمال ہو سکتے ہیں۔ یہ سمارٹ فون اپیلی کیشنز‘ شناخت کرنے والے سافٹ ویئرز اور ڈیجیٹل پرسنل معاونت کے شعبوں میں زیادہ استعمال ہو رہی ہے؛ چونکہ گلوبل ڈیٹا کولیکشن کا حجم غیر معمولی تیزی سے بڑھ رہا ہے‘ اس لیے معلومات اور مواد کی پروسیسنگ کے لیے مصنوعی ذہانت ہی کام دے گی۔ مصنوعی ذہانت میڈیکل کی صنعت‘ تشخیص اور بیماریوں کا علاج کرنے میں بھی انقلاب برپا کر رہی ہے۔
دیگر دفتری امور میں بھی یہ ٹیکنالوجی‘ افراد کی انتہائی معاونت کرے گی یا ان کا مکمل متبادل بن جائے گی۔ دفاعی شعبے میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کم متاثر کن نہیں ہو گا۔ 2016ء میں ایک چھوٹے سے ریسبیری پائی کمپیوٹر‘ جو ہتھیلی میں سما سکتا تھا‘ جس کی قیمت صرف 35 ڈالر تھی‘ نے امریکی ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ کرنل کو مصنوعی ڈاگ فائٹ کی سیریز میں‘ ہر مرتبہ شکست سے دوچار کیا۔
کمپیوٹر مسلسل ”فائٹ‘‘ کے بعد بھی تھکاوٹ کا شکار نہ ہوا جبکہ مد مقابل انسان تھک گیا۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیش رفت جاری ہے۔ یہ میدانِ جنگ میں ٹینک چلانے‘ سمندر میں بحری جہازوں اور روبوٹ سپاہیوں کو کنٹرول میں لائے گی۔ یہ ٹیکنالوجی مواد کی انتہائی تیز پروسیسنگ کر سکتی ہے‘ اس لیے فرنٹ لائن پر موجود دستے دشمن کی پوزیشن اور نقل و حرکت کو تیزی سے سمجھ سکیں گے۔
مصنوعی ذہانت غیر روایتی جنگوںکے لیے غیر معمولی استعمال رکھتی ہے۔ شام اور عراق میں داعش نے اپنے اہداف تک‘ دھماکہ خیز مواد پہنچانے کے لیے ڈرونز استعمال کیے ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں نے دھماکہ خیز مواد کے لیے‘ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں استعمال کیں۔ اب تک یہ گاڑیاں ریموٹ کنٹرول سے چلائی جاتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں خود مختار ٹیکنالوجی استعمال ہو گی۔
چینی صدر مصنوعی ذہانت کی اہمیت سے غافل نہیں۔ نئے سال کے موقع پر صدرکا سالانہ خطاب ٹی وی پر نشر کیا گیا تو اُن کے پیچھے شیلف پر دوکتابیں اس موضوع پر دکھائی دیں۔ چین کی وزارت صنعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے کے لیے تین سالہ منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
منصوبہ جولائی 2017ء میں شروع کردہ ایک عظیم منصوبے کا حصہ ہے۔ منصوبہ نیورل نیٹ ورک‘ پروسیسنگ چپس‘ انٹیلی جنس روبوٹس‘ خودکار گاڑیاں‘ انٹیلی جنس میڈیکل تشخیص کے آلات‘ انٹیلی جنس ڈرونز اور مشینی ٹرانسلیشن کی ترقی کے لیے کام کر رہا ہے۔ چینی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے اعلان کیا کہ مصنوعی ذہانت اور آواز شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کو ترقی دینے کے لیے عظیم ترین کمپنی علی بابا‘ بیدو اور ٹین سیٹ پر مشتمل ایک ڈریم ٹیم تشکیل دی ہے۔
یہ تمام کمپنیاں ٹیکنالوجی‘ ہارڈ ویئر اور مواد کے حصول کے لیے انتھک محنت کر رہی ہیں تاکہ مصنوعی ذہانت کے لیے درکار پلیٹ فارمز قائم کیے جا سکیں۔ مثال کے طور پر بیدو نے اوپن سورس پروگرامز کو ترقی دینا شروع کر دیا ہے جیسا کہ خود کار ڈرائیونگ پلیٹ فارم‘ اپالو۔ یہ زیادہ سے زیادہ مواد اکٹھا کر رہا ہے ۔
دوسری طرف امریکی محکمۂ دفاع بھی مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر رہا۔ اپنے پیش رو‘ ایش کارٹر کی طرح موجودہ ڈیفنس سیکرٹری‘ جیمز میٹس بھی پینٹاگون کے ”ڈیفنس انوویشن یونٹ ایکس پیریمنٹل‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔ ریپبلیکنزکا مطالبہ ہے کہ اس پروگرام کو ایڈوانس ریسرچ پراجیکٹ ایجنسی کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔ ”ڈیفنس انوویشن یونٹ ایکس پیریمنٹل‘‘ کا ہیڈ کوارٹر سیلیکون ویلی میں ہے۔ اس کا مقصد اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ کیلیفورنیا کی ٹیکنالوجی کی اس عظیم وادی میں ہونے والی پیش رفت فوراً فوج کے زیرِ استعمال آ جائے۔
اپنی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کی غرض سے محکمۂ دفاع نے‘ چین میں ہونے والی پیش رفت پر نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ چین کا عقربی حجم اسے ٹیکنالوجی کی دنیا میں پیش رفت کرنے والی دیگر ریاستوں‘ جنوبی کوریا اور جاپان سے ممتاز بناتا ہے۔ خطے میں چین ہی ایسا ملک ہے جو ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
روس ایسا کرنے کے قابل نہیں۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے جیمز میٹس نے چین کی ترقی پر نگاہ رکھنے اور مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کو ترقی دینے کیلئے‘ اپنی نیشنل ڈیفنس سٹریٹیجی کا اہم حصہ قرار دیا ہے۔
امریکہ کو آج صرف مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہی مسابقت کا سامنا نہیں۔ سرد جنگ کے دور میں‘ امریکہ اور سوویت یونین‘ خلائی پروگرام اور جوہری ہتھیاروں کو ترقی دینے کی دوڑ میں شامل تھے۔ اس مقابلے میں امریکہ نے فتح حاصل کی۔ سوویت یونین کی توجہ فوجی ہتھیاروں کی تیاری پر تھی۔ وہ امریکہ جیسی جدت اور اختراع نہیں رکھتا تھا۔ اہم صنعتوںکی ترقی اور حجم نے امریکہ کو سوویت یونین کے ساتھ مسابقت میں مات دینے کے قابل بنایا تھا۔
سوویت یونین کی طرح چین بھی نیشنل سکیورٹی اور دفاع میں کمرشل سکیٹر سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہے؛ تاہم چین کی معیشت‘ سوویت معیشت سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اس کی وجہ سے چین اپنی کمپنیوںکو امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے چین میں‘ حکومت پرائیویسی پر زیادہ پالیسی نہیں رکھتی۔
چین مصنوعی ذہانت کو ترقی دینے والی کمپنیوں کو سہارا دے کر‘ امریکی کمپنیوں کے مقابلے پر کھڑا کر سکتا ہے۔ سوویت یونین کی معیشت سخت کنٹرول میں تھی۔ وہاں کمپنیاں آزاد ماحول میں کام کرتے ہوئے نئی راہیں اختیار نہیں کر سکتی تھیں۔ اس لئے وہ‘ امریکہ کی آزاد معیشت میں کام کرنے والی کمپنیوں کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ چین میں یہ صورت حال نہیں ہے ۔
اس کی کثیر الجہتی معیشت کمپنیوں اور افراد کو‘ ٹیکنالوجی کے نئے مورچے فتح کرنے کا محرک فراہم کرتی ہے۔ مغربی میڈیا چین کے معاشی نظام کی غلط تصویر کشی کرتا ہے کہ اس کی ٹیک کمپنیاں محض بیجنگ کی سبسڈی پر انحصار کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کا معاشی نظام مرکزی کنٹرول میں نہیں ہے۔ اس کے بجائے مرکزی حکومت صرف ایک آئوٹ لائن وضع کرتی ہے‘ جس میں یہ کمپنیاں کام کرتی ہیں۔
مرکزی حکومت‘ کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ ان کے لیے امکانات تلاش کرتی ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو سبسڈی بھی دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی کمپنیاں‘ عالمی مسابقت میں بے دھڑک شریک ہونے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ اس مسابقت کا ایک اہم شعبہ مصنوعی ذہانت ہے۔
اس وقت تک چین یقینا ٹیکنالوجی‘ خاص طور پر سیمی کنڈکٹر کو ترقی دینے کی دوڑ میں امریکہ سے پیچھے ہے۔ یہ فرق بہت زیادہ نہیں۔ گزرنے والے وقت کے ساتھ اس میں کمی آتی جا رہی ہے۔ چین کی پیش رفت کو دیکھتے ہوئے‘ امریکہ جواب دینے پر مجبور ہو گا۔ واشنگٹن کے سامنے چیلنج یہ ہو گا کہ ماضی کی دہرے استعمال (فوجی اور سویلین) کی ٹیکنالوجیز کے برعکس مصنوعی ذہانت‘ الیکٹرونکس مارکیٹ پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ امریکی معیشت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ چین کی پیش رفت‘ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے۔ امریکہ کے سامنے سوال یہ نہیں کہ چین اس دوڑ میں آگے نکل جائے گا بلکہ ایک ایشیائی ملک‘ اس کے اتنا قریب کیسے آ گیا؟ چین اتنا بڑ ا ملک ہے کہ وہ امریکہ کی سیلیکون وادی پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
ایک وقت تھا جب امریکہ کی پوری دنیا پر اجارہ داری تھی۔ کوئی ملک اس کی جدت اور اختراع کا حریف نہیں تھا۔ سوویت یونین بھی نہیں۔ چین نے ایسا کر دکھایا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ ”امریکہ کے اس ابھرتے ہوئے حریف‘‘ کے پَر کاٹنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ وائٹ ہائوس تحقیقات کر رہا ہے کہ کہیں چین اس کے ذہنی وسائل تو نہیں چرا رہا۔ اگر امریکہ‘چین پر توجہ دیتا ہے تو چین لازماً اہمیت اختیار کرتا جائے گا۔
امریکہ اسے نظر انداز بھی نہیں کر سکتا۔ امریکی کمپنیوں گوگل‘ امیزون اور ایپل کا حجم جتنا بڑا ہو گا‘ اس کی پریشانی اتنا ہی بڑھتی جائے گی۔ اگر امریکہ تحقیقات جاری رکھتا ہے تو عدم اعتماد کی فضا میں چینی کمپنیوں کو قدم رکھنے کا موقع مل جائیگا۔