وزیر اعظم پاکستان کا متبادل حلف نامہ
- August 29, 2018 1:58 pm PST
ڈاکٹر تنویرقاسم
حلف کی پابندی مذہبی اعتبار سے ایک مذہبی اور اخلاقی فریضہ سمجھا جاتا ہے۔دور حاضرمیں حلف اٹھانے کی رسم کی پابندی اسی لیے رائج ہے۔ چنانچہ جس شخص سے کسی بڑی ذمہ داری والا کام لیا جاتا ہے۔ اس سے حلف لیا جاتا ہے۔مسلمان اللہ تعالی کو حاضر ناظر جان کر اپنی بنیادی ایمان ،عقیدے اور قرآن وسنت کی تعلیمات کی بنیاد پر حلف اٹھاتے ہیں۔ اور بعض اسلامی ممالک میں قرآن ہاتھ میں پکڑکر حلف لیا جاتا ہے۔
ہندو گنگا جل یا تلسی کا پتا ہاتھ میں لے کر حلف اٹھاتے ہیں۔بعض مذاہب میں آگ کے گرد چکر لگا کر حلف اٹھایا جاتا ہے۔ بعض اولاد یا اپنی کسی پیاری چیز کا نام لیتے ہیں۔ برطانوی کونسل میں بائبل پر حلف لیا جاتا ہے۔ امریکی صدر بھی بائبل پر حلف اٹھاتا ہے۔
سعودی عرب سے شاہ اپنے وزراء سے حلف لیتے ہوئے اقرار کرواتا ہے کہ میں اللہ رب العزت کی قسم اٹھاتا ہوں کہ اپنے دین پر ،اپنے فرمانروا پھر اپنے وطن کا مخلص رہوں گا ، ریاست کا کوئی راز افشاں نہیں کروں گا ریاست کے نظا م اور مفادات کی حفاظت کروں گا اپنی ذمہ مہ داریاں سچائی، ایمانداری اور اخلاص اور انصاف کے ساتھ انجام اداکروں گا۔
ایران کا صدر حلف اٹھاتے ہوئے عہد کرتا ہے کہ بحیثیت صدر مملکت، قرآن کریم اور ملت ایران کے سامنے خداوند متعال کو حلف دیتا ہوں کہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری مذہب، اس کے اسلامی جمہوری نظام اور آئین کا پاسدار رہوں گا اور یہ کہ جو عہدہ میں نے حاصل کیا ہے اس کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اپنی تمام تر استعداد اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤں گا اور یہ کہ خود کو عوام کی خدمت، ملک کے وقار کی بلندی، دین و اخلاق کی ترویج، حق کی حمایت اور انصاف کے نفاذ کے لئے وقف کروں گا اور ہر طرح کی خود سری سے پرہیز کروں گا اور افراد کی آئینی آزادی، احترام اور قوم کے آئینی حقوق کی حفاظت کروں گا۔
میں ملک کی جغرافیائی حدود، سیاسی معاشی اور ٰثقافتی آزادی کی حفاظت کی خاطر کسی اقدام سے گریز نہیں کروں گا اور اللہ تعالی کی مدد، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی پیروی سے، قوم کی طرف سے مقدس امانت کے طور پر سونپے گئے اختیارات کو ایک امین، با تقوی اور فداکار شخص کی مانند سنبھال کر رکھوں گا اور اسے قوم کے نئے منتخب صدر کے حوالے کروں گا۔
پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم عمران خاں نے بھی حلف اٹھایا جس میں انہیں بعض الفاظ کی ادائیگی میں مشکل پیش آئی۔ خصوصا خاتم النبین اور قیامت کے الفاظ پر ان کی زبان لڑکھڑا گئی۔ ظاہری طور پر یہ الفاظ عام ہیں ۔ اس وقت ان سے کیوں ادا نہیں ہوئے ۔واللہ اعلم ۔ خاتم النبین کے الفاظ قر آن میں موجود ہیں۔اسکا مطلب جو شخص قرآن کی تلاوت کرتا ہے اسے ا ن کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے ۔ تاہم یہ بات درست ہے کہ حلف کا متن انتہائی عام فہم اور سادہ الفاظ پر مشتمل ہو نا چاہیے جس میں حلف کی روح اور اس میں عہدوپیمان کے مقاصد بھی قائم رہیں اور عام آدمی کو بھی سمجھ آسکے کہ اسکے وزیر اعظم نے قوم سے کیا عہد و پیمان کیا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم کے لیے نظری اور فکر ی اعتبار سے عہد وپیمان کے تقاضے اور مقاصد اگرچہ اس متن میں پورے ہوتے ہیں مگراس میں غیر ضروری الفاظ کوتکلفا شامل ہیں۔ آپ اس متن کو پڑھیں گے تو محسوس ہو گا کہ اس میں ربط کابھی فقدان ہے۔
ہمارے معاشرے میں بعض طبقات کے ہاں عقد نکاح کے موقع پر ایجاب و قبول کرانے سے پہلے چھ کلمے ایمان مجمل ایمان مفصل پڑھانے کا رواج موجود ہے۔ اگر دولہا کو فی الوقت پڑھائی میں مشکل پیش آنے کا مسئلہ ہو تو اس کی ریہرسل کروائی جاتی ہے ، یہ امر معاملے کی دینی ومعاشرتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ۔
اگر چہ یہ اظہار شریعت کا لازمی تقاضا نہیں۔ خطبہ نکاح اور ایجاب وقبول کافی سمجھے جاتے ہیں۔ مگر ان شرائط کے حامی اسے اسلامی غیرت کا تقاضا سمجھتے ہیں کہ ایک مسلمان خاتون کا نکاح ایک ایسے شخص سے کیا جا رہا ہے کہ تمام حاضرین گواہ رہیں کہ یہ شخص پختہ عقائد کا حامل ہے۔اوربعض اوقات نکاح اسلئے ملتوی کر دیا جاتا تھا کہ دلہا انہیں یاد کر کے سنائے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایسی براتیں لمحوں کیلئے نہیںآتی تھیں بلکہ دنوں کیلئے آیا کرتی تھیں۔اہل عرب آج بھی عقائد کے ساتھ ساتھ جسمانی طہارت وبکارت کا خیال رکھتے تھے ۔
کجا وزیر اعظم کا حلف یہ تو ایک پوری قوم کے ساتھ عہد تھا جسے بازیچہ اطفال بنا دیا گیا۔ صدر پاکستان تواہل زبان تھے جو ایک گاؤں کے مولوی صاحب کا کردار بھی ادا نہ کرپائے۔ اس میں کیا مضائقہ تھا کہ حلف کا متن ایک دفعہ دہرالیا جاتا بے شک تقریب چند لمحے تاخیر سے شروع کرلی جاتی ۔قوم کے ساتھ ایسا مذاق تو نہ ہوتا ! میرا خیال ہے اس سے زیادہ غیر معمولی حلف اور کون سا ہو سکتا ہے۔قرآن کے الفاظ میں وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَ ہٗ بِالْخَیْرِ وَ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(بنی اسرائیل17:11) انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے
ذیل میں موجودہ اور مجوّزہ دونوں متن پیش کیے جارہے ہیں تاکہ واضح ہوسکے کہ ہمارے متن میں کہاں کہاں لفظی تبدیلی کی گنجائش موجود ہے ۔ مجوزہ عبارت حلف جو معنوی تحریف کے بغیر صرف لفظی تبدیلی پر مشتمل ہے اور اسے آسان الفاظ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔
موجودہ حلف کا متن
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔۔ صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں اور وحدت و توحید اور قادر مطلق اللہ تعالی، کتب الہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب اور نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبیین جن کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک اور سنت کی جملہ مقتضیات و تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں۔
کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا کہ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان میں اپنے فرائض و کارہائے منصبی ایمانداری اپنی انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق اور ہمیشہ پاکستان کی خودمختاری سالمیت استحکام یکجہتی اور خوشحالی کی خاطر انجام دوں گا۔کہ میں اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو اپنے سرکاری کام یا اپنے سرکاری فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہونے دوں گا۔کہ میں اسلامی جموریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اس کا تحفظ اور دفاع کروں گا اور یہ کہ میں ہر حالت میں ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بلا خوف ورعایت اور بلارغبت و عناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا ۔
اور یہ کہ میں کسی شخص کو بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی ایسے معاملے کی نہ اطلاع دوں گا اور نہ ظاہر کروں گاجو بحیثیت وزیر اعظم پاکستا ن میرے سامنے غور کیلئے پیش کیا جائے گا یا میرے علم میں آئے بجز جبکہ بحیثیت وزیر اعظم اپنے فرائض کی کماحقہ انجام دہی کیلئے ایسا کرنا ضروری ہو۔اللہ تعالی میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔
متبادل حلف کا متن
میں …. صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں
کہ میں مسلمان ہو ں ،قادر مطلق اللہ تعالی کی وحدانیت ، تمام کتب الٰہیہ، آخری کتاب قرآ ن پاک، اسکے آخری رسول محمد الرسول اللہﷺ کی ختم نبوّت ،جن کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، روزقیامت اور قرآن وسنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھتا ہوں۔
یہ کہ میں پاکستان کا حامی و وفادار رہوں گا۔
بحثیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اپنے فرائض ایمانداری، انتہائی صلاحیت اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قانون کے مطابق ہمیشہ پاکستان کی خود مختاری ،سالمیت ،استحکام ،فلاح وبہبود اور خوشحالی کی خاطرکام کرونگا۔
یہ کہ میں اسلامی نظریہ کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہوں گا جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔
یہ کہ میں اپنے ذاتی مفاد کو سرکاری امور یا فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہو نے دوں گا۔
یہ کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو برقرار رکھوں گا اور اسکا تحفظ ودفاع کروں گا۔
یہ کہ میں ہر حالت میں تمام پاکستانیوں سے بلا خوف ورعایت اور بلا رغبت وعناد قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔
یہ کہ میں کسی شخص کو بلا واسطہ یا بالواسطہ کسی ایسے معاملے کی نہ اطلاع دوں گا اور نہ اسے ظاہر کروں گا جو بحثیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سامنے غور کے لیے پیش کیا جائے گا۔
یا میرے عمل میں آئیگا جسکا بحثیت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے فرائض کی کما حقہ انجام دہی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو۔
اللہ تعالی میری مدد اور رہنمائی فرما ئے۔آمین
میری یہ طالب عالمانہ رائے ہے۔ اس میں مزید نکھار کی گنجائش موجود ہے ۔
شوق قدوائی کا بڑا لاجواب شعر ہے
وعدوں کو جو دیکھو تو وفا ہی نہیں ہوتا
قسموں کو جوپوچھو تو وہاں لاکھ حلف ہیں
وزیر اعظم عمران خاں کے پہلے خطاب میں جو باتیں اور جو عزائم ظاہر کیے گئے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں عملی جامہ پہنانے کی توفیق اور ہمت عطا فرما ئے۔خلیفہ اول صدیق اکبرؓ کے پہلے خطبہ میں بھی ہمیں بڑے تاریخی الفاظ ملتے ہیں میرے نزدیک ہر مسلمان حکمران کے لیے خطبہ صدیق اکبرؓ مشعل راہ ہو نا چاہیے ۔فرمایا کہ: اگر میں ٹھیک کام کروں میری مدد کیجئے اور اگر غلط کام کروں مجھے سیدھا کردیجئے۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کاحق اسے دلواؤں، اگر خدا چاہے۔ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک ایک کمزور ہے، یہاں تک میں اُس سے حق وصول کروں، اگر خدا چاہے۔
کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اللہ کی راہ میں جدوجہد چھوڑے اور ااس پر ذلت مسلط نہ کردے، کسی قوم میں فحاشی پھیلے اور اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کردے۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسول ﷺ کا مطیع رہوں اور اگر میں اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے (طبری، ابنِ ہشام)حضرت ابو بکر صدیقؓ نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشور کا اعلان فرمایا، پورے دور خلافت میں اس کی مکمل پاسداری کی۔ آپؓ نے بیت المال سے ایک عام مزدور کی اجرت جتنا وظیفہ لیا اور عسرت میں زندگی بسر کی۔
بہت مضبوط,مثبت اور معتدل تحریر ھے
مفید تحریر.. مگر میں بس یہ اضافہ کرنا چاہونگی کہ خاتم النبین اور دیگر الفاظ جن کا خاص طور سے ذکر کیا گیا خواہ عام ہوں مگر پی ایم صاحب کی اردو اتنی رواں نہیں کہ بغیر مشق کے باآسانی ادا ہوں…. بہر حال دعا یہی ہے کہ اب کی بار وعدے وفا ہوں..