علی گڑھ تحریک کا تہذیبی مطالعہ
- December 17, 2016 9:43 pm PST
پروفیسر سید عبد اللہ
علی گڑھ تحریک کو بظاہر صرف سیاسی اور محض تعلیمی تحرک خیال کیا جاتا ہے مگر اس تحریک میں اور بھی بہت کچھ ہے کیونکہ یہ تحریک ایک لحاظ سے علمی و ادبی تحریک بھی ہے۔ علمی اس معنی میں ہے کہ اس تحریک کے زیر اثر فکر و نظر میں اہم انقلاب نمودار ہوا اور مذاق تصنیف میں گہری تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔
ملک میں مغرب سے استفادہ کرنے کے لیے جو میلان پیدا ہوا اس کے ماتحت جس طرح انداز نظر بدل گئے اسی طرح معنی اور موضوعات میں بھی تغیر پیدا ہوا۔
ہندوستان میں سر سید کے زمانے سے کچھ پہلے ہماری علمی تصانیف کا دائرہ، مذہبیات، تاریخ و تصوف اور تذکرہ نویسی تک محدود تھا۔ مذہبیات مین منقولات و روایات سے مواد حاصل کیا جاتا تھا اور مذہب کی ان قدروں پر خاص زور دیا جاتا جو زندگی کے مادی پہلوؤں سے دور لے جانے والی ہوں۔ تاریخ میں سرسری واقعہ نگاری کے سوا کسی فلسفہ زندگی کی تلاش نہ تھی۔
باقی رہا صوفیانہ ادب سو اس کا مابعد الطبیعاتی انداز اور عرفانی رنگ غیر معین اور مبہم موضوعات کا متقاضی تھا۔ تذکرے بہت لکھے جاتے تھے مگر ان میں سچے تذکرے اور فضائل کا مبالغہ آمیر بیان عموما ان کا طرہ امتیاز تھا۔
سر سید کی علمی و ادبی تحریک نے اس سب رجحانات کو بدل ڈالا اور وہ افادیت اور مقصدیت کے علمبردار بھی تھے۔ علی گڑھ کی علمی تحریک کا اجتماعی عمل ابتداء میں علی گڑھ سے دور غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی کے قیام سے شروع ہوتا ہے علی گڑھ تحریک اس علمی روح کی توسیع و اشاعت کا نام ہے جو اس نامور سوسائیٹی کی تاسیس کا باعث ہوتی تھی۔
پس علی گڑھ تحریک کا حقیقی کام وہ نہیں جو علی گڑھ کالج میں ہوا بلکہ وہ ہے جو علی تحریک کے علمبردار سر سید اور ان کے رفقاء نے انجام دیا جو ان کی تحریک کی اس علمی روح سے متاثر ہوئے۔ اس میں خود علی گڑھ کالج یا علی گڑھ یونیورسٹی کا کچھ زیادہ حصہ نہیں۔
سر سید کے انتقال کے بعد یہ ایک مرکز ضرور تھا مگر علمی رہنمائی کا منصب اس کے ہاتھ سے چھن گیا تاہم سر سید کی پیدا کی ہوئی علمی لہر قید مقامی سے آزاد ملک میں پھیل گئی۔ ان مقتدر اور نامور ہستیوں کی فہرست طویل ہے جنھیں ہم علی گڑھ تحریک کے اہم اراکین قرار دے سکتے ہیں۔
سر سید کے نامور رفقاء میں نواب محسن الملک، نواب وقار الملک، مولانا حالی، مولانا شبلی، مولوی نذیر احمد، مولوی چراغ علی، مولوی ذکاء اللہ، بعد میں مولانا وحید الدین سلیم، نواب عماد الملک اور عبد الحلیم شرر۔
ان نامور شخصیات کے بعد دوسرا دور شروع ہوتا ہے جس مین نواب صدر یار جنگ، ڈاکٹر سر ضیاء الدین، صاحبزادہ آفتاب احمد خاں، مولوی عبد الحق، مولانا طفیل احمد، مولانا ظفر علی خاں، سجاد حیدر یلدرم، مولوی عزیز مرزا، مولوی عنائیت اللہ اور مولانا حسرت موہانی شامل ہیں۔
تیسرے دور کی شخصیات میں رشید احمد صدیقی، عبد الماجد دریابادی، کواجہ غلام السیدین، ڈاکٹر عابد حسین، سید ہاشمی فریاد آبادی، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب، قاضی تلمذ حسین قابل ذکر ہیں۔
ایک لحاظ سے ندوۃ اور دار المصنفین کی تحریک بھی علی گڑھ کے اثرات کی رہین منت ہے کیونکہ علامہ شبلی جو ان تحریکوں کے روح رواں ہیں۔ ادبی لحاظ سے علی گڑھ تحریک کے اثرات اور بھی وسیع، دور رس معلوم ہوتے ہیں اس ھوالے سے بعض نئے رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلا نیچرل شاعری کی تحریک جس میں آزاد کے علاوہ حالی بھی برابر کے شریک ہیں۔
نیچرل شاعری سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ لکھا جائے وہ فطری جذبات کے تحت فطری انداز بیان میں لکھا جائے قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ مولانا حالی کی تنقیدی شاعری میں اسی قسم کے بڑے بڑے اور اہم مسائل زیر بحث آتے ہیں۔
اُردو میں تنقید جدید کا آغاز بھی سر سید اور رفقائے سر سید سے ہوتا ہے اور اس سلسلے میں بعد کی بیشتر کوششیں دراصل اسی منزل اولین سے آگے بڑھتی ہیں۔ سر سید کی تنقید مذہبی اور عام سوشل معاملات میں تنقیدی زاویہ نظر اس انتقادی رجحان کے بہت تقویت کا باعث ہوا۔ رفقاء سر سید میں شبلی اور حالی نے نقد الاداب کو اس بلند معیار پر پہنچایا جہاں سے آگے وہ ابھی تک کچھ زیادہ نہیں بڑھ سکی۔
اس کے بعد سوانح نگاری کا نمبر آتا ہے اس میں خطبات احمدیہ کے بعد بہت نمایاں ترقی ہوئی اور شبلی اور حالی اس فن کو بہت ترقی دیتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں فن اور سوانح نگاری کا مبداء اور بڑا سر چشمہ تحریک سر سید سے ہی نکلتا ہے۔ ان سوانح نگاروں نے سوانح نگاری کو فطری اُصولوں کے مطابق آگے بڑھایا شخصیت کی مکمل تصویر، صداقت اور حقیقت کی تلاش اور حسن ترتیب، حسن انتخاب ان کی سوانح عمریوں کا خاص امتیار ہے۔
تاریخ نگاری کا علمی اندازہ بھی اُردو میں اسی دور میں پیدا ہوتا ہے۔ شبلی، شرر، ذکاء اللہ اس دور کے بڑے مورخ ہیں۔ اگرچہ آزاد اس حلقے سے باہر ہیں مگر اس زمانہ کی ہواؤں سے وہ بھی آزاد نہیں۔ شبلی کے شاگردوں اور رفیقوں نے اسلامی تاریخ کی تحقیق کا کام آگے بڑھایا۔ شبلی کے کارناموں کو ہم علی گڑھ سے جدا کر کے نہیں دیکھ سکتےہر چند کے ان کا مرکز بدل گیا تھا۔
ناول نگاری بھی اسی حلقہ کے گردو پیش سے نمودار ہوئی مولوی نذیر احمد سرسید کے رفیق خاص تھے۔ اُنہوں نے اُردو میں قصے لکھ کر ناول کو مقبول بنایا اور زندگی کے بعض مسائل کی ترجمانی کے ذریعہ ادب اور زندگی کا رابط قائم کیا۔ شرر جو سر سید کے دائرے کے ایک بزرگ ہیں تاریخی ناول نگاری میں بڑا نام پاتے ہیں اور ناول کی ترقی کا قدم آگے بڑھنا ہے۔
مکالمہ نگاری بھی سر سید کے طفیل اُردو میں ایک مقام حاصل کرتی ہے، تہذیب الاخلاق کے مقالہ نگاروں میں سر سید کے بیشتر رفقاء عظام کے نام نظر آتے ہیں ان میں کچھ اور مدت کے بعد اُردو میں مقالہ نگاری کا فن ہمارے بڑے فنون ادبی کا درجہ حاسل کر لیتا ہے۔ محسن الملک، وقار الملک، چراغ علی، شرر، شبلی، حالی کے مقالے اُردو ادب میں بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔
پروفیسر سید عبد اللہ کا یہ مضمون مشہور کتاب اُردو ادب کا تہذیبی پس منظر میں شائع ہوا ہے جسے دارالشعور لاہور چھاپا